تھیٹر ”سیلز مین کی موت“ نفسیات اور سماجی رویے کی منفرد کہانی
اگر آپ آج سے تقریباً ایک صدی پہلے کے متوسط طبقہ کے گھرکا دورہ کرنا چاہتے ہیں جہاں پیسے کم اور خواب زیادہ ہیں، جہاں کامیابیوں کے آڑے مجبوریاں آجاتی ہیں، جہاں وقت بدلنے پر لوگوں کا رویہ بھی بدل جاتا ہے تو آرتھر ملر کا ڈرامہ ’Death of a Salesman‘ اس کے لیے بہترین انتخاب ہے۔
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس ( ناپا) کے ضیا محی الدین تھیٹر میں یہ ڈرامہ 8 تا 12 جنوری 2025 رات 8 بجے پیش کیا گیا۔ 3 گھنٹہ دورانیہ کے کھیل کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی کاوش مجتبیٰ زیدی کی ہے جبکہ ہدایات کار فیضان چاولہ تھے۔
معاشرے کے مختلف طبقات کی نفسیات ڈرامہ کا موضوع تھا۔ اس کا پلاٹ ایک سیلزمین ”ولی لومین“ کے گرد گھومتا ہے جو خواہش کے باوجود مڈل کلاس چکر سے باہر نہ نکل سکا۔
وہ زندگی بھر اپنی کامیابی لوگوں کے چند تعریفی جملوں اور ملنے والی تنخواہ کو کافی سمجھتا رہا مگر وہ متوسط طبقہ سے نکلنے سے محروم رہا۔
ڈرامہ میں ’سیلزمین‘ کا کردار اسامہ خان نے خوب نبھایا۔ مکالموں کی ادائیگی سے جسمانی حرکات تک، انہوں نے ایک ایسے شخص کی خوب ترجمانی کی جو تنخواہ کے لالچ میں خواب پس پشت ڈالنے کے بعد اب ادھیڑ عمری میں وہ معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہے۔
ولی لومین کی بیوی ”لنڈا لومین“ کا کردار صفیہ بھالائشہ نے ادا کیا اور عورت کی ازلی خوبیوں وفا، محبت، گھرداری اور خاندان جوڑ کر رکھنے کی کوششوں کو تاثرات اور مکالموں سے خوب ظاہر کیا۔
ولی لومین کے بڑے بیٹے ”بف“ کا کردار زوہیر زبیر جبکہ چھوٹے بیٹے ”ہیپی“ کا کردار اشمل لالوانی نے پیش کیا۔ دونوں بیٹے اپنے والد کی امیدوں پر پورااترنے، اپنے خواب پورے کرنے کی کشمکش میں گرفتار تھے۔
وہ اس مخمصہ میں گرفتار تھے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے، اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگنا چاہیے یا اپنے والد کے؟ جو کہ اب بوڑھے ہیں اور نادانستہ اپنے بیٹوں سے بہت سے امیدیں جوڑے بیٹھے ہیں۔
ڈرامہ میں کاروباری مزاج کی عکاسی نہایت عمدگی سے کی گئی۔ جہاں آجر اپنے ملازمین کو اس وقت تک اہمیت دیتا ہے جب تک وہ اس کے کام کے ہوتے ہیں، اور جب نئی نسل پرانی نسل کی جگہ لیتی ہے تو یہ رویہ مزید واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔
یہاں ”چارلی“ کے کردار میں سید جمیل نے اگلی نسل جبکہ ”بِن“کے کردار میں عامر نقوی نے نوجوان باس کا کردار ادا کیا۔ کاروبار کے سینے میں دل نہیں ہوتا، یہی بات بن نے نہایت عمدگی سے لوگوں کے سامنے عیاں کردی۔ نئی نسل اخلاقی اقدار سے زیادہ پیسہ کمانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
آرتھر ملر نے یہ شاہکار 1949 میں تخلیق کیا، اس کے تمام کردار، واقعات اور حقائق اسی مناسبت سے ہیں۔ اسے ناپا میں اردو زبان میں پیش کرتے ہوئے بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تاکہ ڈرامہ کی اصلیت ختم نہ ہوجائے۔ تاہم اس طرح وہ آج کے لوگوں کو سمجھنے اور ان سے ربط قائم کرنے میں کہیں کہیں ناکام نظر آتا ہے۔
ڈرامہ کی پیش کش بہت عمدہ تھی، مگر ہر بہترین تخلیق میں مزید بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ جہاں متاثر کن ہدایت کاری کے نتیجے میں ایک ہی منظر میں حال اور ماضی کو ایک ساتھ بہت کامیابی سے دکھایا گیا۔ وہیں کچھ مواقع پر بلاکنگ بھی نظر آئی اور ناظرین کی جانب چہرہ نہ ہونے کے باعث اداکاروں کے چہرے کے تاثرات غیر واضح رہے۔ تاہم مکالمہ کی جاندار ادائیگی اور لہجہ کا اتار چڑھاو ہر کردار کا نہایت عمدہ نظر آیا۔
یہاں اگر بات کی جائے اداکاری، ہدایت کاری اور سیٹ ڈیزائننگ کی، تو یہاں ناپا کے طلبہ نے اپنی مہارت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ مختلف مناظرکے لحاظ سے سیٹ کو عمدگی سے ترتیب دیا گیا۔
جزئیات کا بھی خیال رکھا گیا کہ ٹیلی فون، آئینہ، کھڑکیاں اور کرسیاں بھی اسی دور کی ہوں کہ جس کو ڈرامہ میں دکھایا جارہا ہے۔ یہاں اس ڈرامہ کی پیش کش میں پس منظر موسیقی کی تعریف نہ کرنا صریحاً زیادتی ہوگی۔
مجموعی طور پر یہ ڈرامہ ادب کے ان شائقین کے لیے بہترین انتخاب ہے جو کلاسیک ادب کے رسیا ہیں، ناپا کے آرٹسٹوں نے اس معاملے میں ان کو مایوس نہیں کیا۔