کراچی سی ٹی ڈی اہلکار ہی کرپٹو کرنسی تاجر کے ’اغواکار‘ نکلے، بھاری رقم اکاؤنٹ میں منتقل
کراچی: کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ایک افسر سمیت سات مشتبہ افراد کو کرپٹو کرنسی تاجر کے اغوا اور 340,000 ڈالر تاوان کے بعد رہا کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
پولیس اہلکار کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن نے بتایا کہ ایک اور پولیس اہلکار کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں جو تاحال فرار ہے۔
انسداد تشدد کرائم سیل (اے وی سی سی) نے گرفتار ملزمان کی شناخت حارث عرف اشعر، محمد رضوان شاہ، طارق حسن شاہ عرف عامر، مزمل رضا، عمر جیلانی، عمر ارشاد اور نعمان رفعت کے نام سے کی۔
اے وی سی سی کے سرکاری بیان میں گرفتار پولیس اہلکار اور اس کی موجودہ پوسٹنگ کی شناخت نہیں کی گئی۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص 30 سالہ محمد ارسلان جو کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتا تھا، کو 25 دسمبر کو منگھوپیر سے اغوا کیا گیا۔
اغوا کاروں نے مغوی تاجر کے بائنانس اکاؤنٹ کے ذریعے 340,000 امریکی ڈالر مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کیے اور اسے بریگیڈ پولیس کے دائرہ حدود میں چھوڑ دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق محمد ارسلان نے بھتہ خوری کے مقصد سے اغوا سمیت دیگر دفعات کے تحت ایف آئی آر کٹوائی۔ جس کی تفتیش اے وی سی سی/سی آئی اے کو سونپ دی گئی۔
سرکاری بیان کے مطابق اے وی سی سی کے ایس ایچ او اور دیگر پر مشتمل ایس ایس پی اے وی سی سی انیل حیدر منہاس کی تشکیل کردہ ٹیم نے 3 جنوری کو میٹروپولیس کے مختلف حصوں میں ’تکنیکی بنیادوں پر‘ کارروائیاں کیں اور سات مبینہ اغوا کاروں کو گرفتار کیا۔
”گرفتار ملزمان عادی مجرم ہیں جنہیں ماضی میں گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا تھا۔“
منگھوپیر پولیس اسٹیشن میں 27 دسمبر کو درج کی گئی ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق شکایت کنندہ محمد ارسلان نے بتایا کہ وہ منگھوپیر میں صائمہ عربین ولاز میں رہتا تھا اور کرپٹو کرنسی کا کاروبار کرتا تھا۔
تقریباً 15-20 دن پہلے حامد کے نام سے ایک شخص نے اس سے ڈالر خریدنے کے لیے رابطہ کیا لیکن اس نے اسے بتایا کہ اس نے ڈالر کی فروخت/خریداری نہیں کی۔ مذکورہ شخص 10-15 دن تک مسلسل اس سے رابطے میں رہا لیکن وہ اسے ٹالتا رہا۔
اس کے بعد حامد نامی شخص نے اپنے دوست زوہیب سے رابطہ کیا اور بعد ازاں 24 دسمبر کی رات تین افراد صائمہ عربین ولاز میں ارسلان کے دفتر آئے۔ ان میں سے دو نے اپنی شناخت مزمل اور حماد کے نام سے ظاہر کی۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے 30 ہزار ڈالر مانگے تھے اور جب ارسلان نے غیرملکی کرنسی کی مد میں رقم طلب کی تو اہلکاروں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور 45 منٹ رکے رہے۔ بعدازاں ملزمان نے ارسلان کو بتایا کہ اشعر نامی شخص ادائیگی کرے گا اور تمام لوگ 25 دسمبر رات ایک بجے قریبی ہوٹل پہنچے جہاں ایک گاڑی آئی جس میں تین افراد سوار تھے اور انہوں نے اپنا نام اشعر، مزمل اور زمان بتایا۔
شکایت کنندہ نے بتایا کہ اس نے اشعر سے رقم کی ادائیگی کا تذکرہ کیا جس کے بعد وہ مسلسل ٹالتا رہا اور کسی کو فون کیا جس کے بعد ایک بج کر 40 منٹ ایک پولیس وین آئی جس کی نمبر پلیٹ نہیں تھی، پولیس وین سے سادہ کپڑوں میں ملوث 5 افراد باہر آئے، انہوں نے اپنے منہ ڈھانپ رکھے تھے اور ارسلان کو اپنے ساتھ ایف آئی اے صدر آفس لے آئے۔
”سادہ کپڑوں میں پولیس والوں“ نے زبردستی اس کا Binance اکاؤنٹ کھولا اور 340,000 ڈالر مختلف اکاؤنٹس میں منتقل کر دیے۔ انہوں نے اس کی جیب سے نقدی بھی چھین لی۔
انہوں نے اس کا سیل فون ری سیٹ کیا، اسے واپس دیا اور صبح 4 بجے اسے قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے قریب چھوڑ دیا۔ اس نے رکشہ کرایہ پر لیا اور اپنے گھر پہنچا۔
آئی جی نے سی ٹی ڈی کا دفاع کیا
اس حوالے سے انسپکٹر جنرل پولیس غلام نبی میمن نے کہا کہ اس میں سی ٹی ڈی ملوث نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی پولیس اہلکار کسی غیر قانونی کام میں ملوث پایا جاتا ہے تو پولیس ہمیشہ کارروائی کرتی ہے۔ ”ہم کسی کو نہیں بخشتے،“۔
میمن نے اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی کام میں ملوث پائے جانے والے کسی بھی پولیس اہلکار سے کوئی رعایت نہیں برتی جا رہی ہے۔
ان کے خلاف نہ صرف ایف آئی آر درج کی گئیں بلکہ انہیں محکمانہ کارروائی اور ملازمت سے برخاستگی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔