سپریم کورٹ کا جائیداد کے تنازع سے متعلق اہم فیصلہ، مقدمات میں تاخیر پر اظہار تشویش
سپریم کورٹ نے جائیداد کے تنازع سے متعلق ایک اہم فیصلہ جاری کیا ہے جس میں عدالتوں میں مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے فیصلوں میں تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کی جانب سے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری صرف عدالتوں پر ہی عائد کی جاتی ہے جبکہ فریقین اور ان کے وکلا بھی اس طرح کی تاخیر کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہیں۔
سپریم کورٹ نے جائیداد کے تنازع سے متعلق اہم فیصلہ جاری کیا ہے، 13 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا، جس میں عدالتوں کے سامنے آنے والے مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا ناقابل تردید ہے، عوام کی جانب سے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری صرف عدالتوں پر ہی عائد کی جاتی ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ بغیر یہ تسلیم کیے کہ فریقین اور ان کے وکلا بھی اس طرح کی تاخیر کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہیں، درحقیقت التواء کی درخواستیں دائر کرنا تاخیر کی ایک بڑی وجہ ہے۔
75 سالہ بوڑھا باپ بیٹوں کے بجائے زمین تحفے میں کسی کو کیوں دے گا؟ سپریم کورٹ میں اپیل مسترد
سپریم کورٹ کے مطابق ہر جج ملک کی تقریباً ہر عدالت میں موجود بڑے پیمانے پر پچھلے مقدمات سے آگاہ ہے، وقت آگیا ہے کہ عدالتیں گراؤنڈ لیول پر بھی داخلی طور پر مناسب مینجمنٹ سسٹم برقرار رکھیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ جج کا مشن انصاف کی فراہمی اور فریقین کے درمیان تنازعات کو ملک کے قانون کے مطابق حل کرنا ہے، مقدمات کی درجہ بندی کے لیے مناسب حکمت عملی کا نظام موجود ہے۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اپیل کی سماعت پر تاخیر سے اکثر ملزم قید کے دوران انتقال یا اپنی سزا مکمل کر کے جیل سے رہا ہو چکا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا تھا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف سے انکار ہے، ہائی کورٹس ماتحت عدلیہ کے لیے آرٹیکل 202،203 کے تحت دیوانی مقدمات کے لیے وقت مقرر کرنے کے بارے میں رولز بنا سکتی ہیں۔