سینیٹر عرفان صدیقی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان مقرر
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کا ترجمان مقرر کردیا گیا۔
اس حوالے سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی کے لیڈر اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے بنائی کمیٹی کے رُکن سینیٹر عرفان صدیقی کو حکومتی اتحادی کمیٹی کا ترجمان مقرر کیا ہے۔
یاد رہے کہ 23 دسمبر کو پی ٹی آئی اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان اسپیکر ہاؤس میں ملاقات ہوئی تھی جس میں فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے اور 2 جنوری کو ہونے والی آئندہ میٹنگ میں اپوزیشن کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیے جانے پر اتفاق کیا گیا تھا جب کہ وزیراعظم نے ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی امید کا اظہار کیا تھا۔
حکومتی کمیٹی میں نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، سینیٹر عرفان صدیقی، رانا ثنااللہ، نوید قمر ، راجا پرویز اشرف اور فاروق ستار، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسد قیصر، اعجاز چوہدری، حامد رضا اور علامہ راجا ناصر عباس شامل تھے۔
میٹنگ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کمیٹی میں اعجاز الحق اور خالدمگسی کو شامل کرلیا تھا۔
وزیر اعظم نے مذاکراتی عمل میں مثبت پیش رفت کی امید ظاہر ہوئے کہا تھا ملک کی وسیع تر مفاد کے لیے مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوگی۔
پی ٹی آئی سے مذاکرات سزاؤں کی وجہ سے متاثر نہیں ہوں گے، عرفان صدیقی
قبل ازیں سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی پارٹی لیڈر اور پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے رکن سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم عمران خان کے بیانات کو نہیں، اُن کی نامزد کردہ کمیٹی کے تحریری مطالبات کو دیکھیں گے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما عرفان صدیقی نے کہاکہ مذاکراتی کمیٹی کے پہلے اجلاس کے دِن ہی وزارت داخلہ کو پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کو عمران خان سے ملاقات میں سہولت دینے کا کہہ دیا گیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں آئندہ بھی یہ سہولت فراہم ہوتی رہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے اجلاس کا ماحول بہت اچھا تھا، اچھی اوپننگ ہوئی ہے، ہمارا بیٹھنا ہی بہت بڑی پیش رفت ہے، پی ٹی آئی خود بھی حکومت میں رہی ہے، جیلوں سے نکلنے یا نکالنے کا کیا آئینی وقانونی طریقہ ہے؟ وہ جانتے ہیں، ہم نے کوئی حد مقرر نہیں کی جس حد تک پیش رفت کرسکتے ہیں اور نہ کریں گے ۔
60 افراد کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سے سزائیں دینے اور اس کے ممکنہ اثرات کے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ کسی کا قید ہونا ،ڈیڈ لاک نہیں کہلا سکتا، ماضی میں بڑے بڑے سیاسی رہنما لمبے عرصے تک قید میں رہے ہیں۔
نامزد وزیرخارجہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام پر بات کرنے کی تیاری کی ہوئی ہے، رچرڈ گرینل
مسلم لیگ ن کے رہنما نے مزید کہا کہ بات چیت کا آغاز اُس وقت ہوا جب خود عمران خان کو سزا ہو چکی ہے، مذاکرات کی سوچ سے سزاؤں کا تعلق نہیں، عمران خان نے اپنی کمیٹی کومذاکرات کا ٹاسک دیا اور کمیٹی نے اسپیکر قومی اسمبلی سے رابطہ کیا جس پر ایاز صادق نے حکومت سے رابطہ کیا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کا پی ٹی آئی خود محرک بنی ہے۔ پہلے دن اجلاس میں بات ہوئی کہ باہر بہت کچھ ہوگا، مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس جس کمرے میں ہورہے ہیں اُس ’آئینی کمرے‘ میں مذاکرات پر بیرونی ماحول کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ سزاؤں کو مذاکرات پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کی وجہ سے پاکستان کے کسی کونے میں کوئی افراتفری یا بے چینی نہیں۔ مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے دعاگو ہیں اور ہم ’آؤٹ آف وے‘ جاکر کامیابی کا حصول چاہتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ بیل منڈھے نہ بھی چڑھی تو بھی پاکستان آب و تاب سے یوں ہی آگے بڑھتا رہے گا۔
عمران خان کی جانب سے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کی حکومتی کاوشوں کے اعتراف کے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ عمران خان کا شکریہ۔ انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف کی کاوشوں کا اعتراف کیا۔
پی ٹی آئی کے مطالبات سامنے آئیں گے تو مذاکرات مکمل ہونے کے وقت کا اندازہ ہوگا، رانا ثناء اللہ
’آپریشن گولڈسمتھ‘: خواجہ آصف کے بیان پر رچرڈ گرنیل اور گولڈ اسمتھ کا شدید ردعمل
پی ٹی آئی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے، عرفان صدیقی
رچرڈ ایلن گرینل کے ٹویٹس اور بیانات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان کی پالیسیاں کسی رچرڈ گرینل کے ٹویٹس پر نہیں بنتیں۔ گرینل ہمارے لئے ’نان انٹیٹی ’ ہیں۔ہم عافیہ صدیقی کے لئے آواز بلند کررہے ہیں۔ابو غریب جیل، گوانتا نامو میں کیا ہوا؟ غزہ میں کیا ہورہا ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ خود امریکا میں اُن کی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے والوں کو کیا سزائیں ہوئیں، یہ سب حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاکستان میں فیصلے آئین، قانون اور ریاستی نظام کے مطابق ہی ہوں گے۔