پکتیکا میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری پر کابل کا پاکستان سے احتجاج
افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے گزشتہ روز پاک افغان سرحد کے قریب مبینہ پاکستانی فضائی حملے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے بدھ کو جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت خارجہ نے دوپہر کو پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کیا اور ڈیورنڈ لائن کے بالکل پار سرحد کے قریب صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں پاکستانی فوجی طیاروں کی بمباری پر شدید احتجاجی نوٹ پیش کیا۔‘
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان کا ایک وفد افغان حکومت کے حکام سے بات چیت کے لیے کابل میں موجود ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان سے قبل افغان وزارت دفاع کے نسبتاً سخت الفاظ میں دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان کے مہاجرین بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ یا فوج کے ذرائع ابلاغ کے ادارے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) نے ابھی تک پکتیکا میں فضائی حملوں کے بارے میں کوئی آفیشل بات نہیں کی ہے۔
تاہم، فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ نے پاکستان کے ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ ان حملوں میں جیٹ طیاروں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے ”دہشت گردوں کے ٹھکانوں“ کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں دعویٰ کیا کہ حملے میں کم از کم 20 عسکریت پسند مارے گئے۔
یہ حملے اس دن ہوئے جب پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان محمد صادق اور ان کی ٹیم نے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیر خارجہ محمد متقی سے ملاقات کی جس میں دو طرفہ امور بشمول افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ دورہ وسیع پیمانے پر دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مصروفیات کو بحال کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا جو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی وجہ سے ٹھپ پڑ گئے تھے، ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اسلام آباد اور کابل کے درمیان تنازعے کی اہم وجہ ہے۔
حالیہ مبینہ فضائی حملہ ہفتہ کو جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے مہلک حملے کے بعد ہوا، جس کے نتیجے میں پیرا ملٹری فورس، فرنٹیئر کور کے 16 جوان شہید ہوئے۔ اس کے فوری بعد اتوار کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے جنوبی وزیرستان کے علاقائی ہیڈ کوارٹر وانا کا دورہ کیا۔
اے ایف پی کے مطابق ، ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں حالیہ حملہ منگل کو کئے گئے فضائی حملوں کا ”ایک اہم محرک“ تھا، لیکن ”واحد نہیں تھا“۔
پاکستانی سیکورٹی ذرائع کے حوالے سے رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فضائی حملوں میں ٹی ٹی پی کمانڈروں کے زیر انتظام کیمپوں اور ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ عمر میڈیا کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں کالعدم تنظیم کے 60 سے زائد ارکان ہلاک یا زخمی ہوئے۔
دریں اثنا، ٹی ٹی پی سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے پاکستانی سیکیورٹی حکام کے ان دعوؤں کو یہ کہتے ہوئے یکسر مسترد کرنے کی کوشش کی کہ ان کے تمام کمانڈرز اور اس کے میڈیا سیل کے سربراہ زندہ اور غیر محفوظ ہیں۔
عمر میڈیا نے اپنے سربراہ چوہدری منیب الرحمان جٹ کی ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں۔ تاہم، ان پوسٹوں کی صداقت کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔