کُرم میں امن کے قیام کیلئے 125رکنی جرگہ متحرک، پولیس کی نفری بڑھانے کا فیصلہ
ضلع کُرم میں امن کے قیام کے لیے 125 رکنی پشتون امن جرگہ پچیس گاڑیوں میں کُرم پہنچ گیا جبکہ علاقے میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس نفری بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اس مد میں مراسلہ بھی ارسال کردیا گیا ہے۔
ذرائع جرگہ کے مطابق پچیس گاڑیوں پر مشتمل 125 رکنی جرگہ فریقین عمائدین سے ملاقات کرے گا، جرگہ میں علما اور قبائلی عمائدین شامل ہیں۔
جرگہ نے سماجی رہنما ڈاکٹر عبدالقادر کی رہائش گاہ پر قیام کیا جبکہ جرگہ میں مفتی کفایت اللہ، نصیر کوکی خیل، امان اللہ وزیر اور حمید شیرانی بھی شامل ہیں۔ سماجی رہنما ڈاکٹر عبدالقادر کے مطابق جرگہ ممبران پہلے مرحلے میں صدہ اور پھر پاراچنار جائیں گے۔
کُرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے نفری بڑھانے
آئی جی خیبرپختونخوا نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کر کے کُرم میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے نفری بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔
کُرم میں جنگ بندی کے حکومتی اعلان کے باوجود جھڑپیں، ہلاکتوں کی تعداد 111 ہوگئی
انسپیکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا کی طرف سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ کرم مین شاہراہ کو ہر ممکن محفوظ بنایا جائیگا جس کے لئے رواں اور اگلے مالی سال میں ایکس سروس مین کی بھرتیاں کی جائینگی
مراسلے کے مطابق ٹل پاڑا چنار روڈ کی سیکیورٹی کے لیے 400 ایکس سروس مین اہلکاروں کی بھرتی کی جائے گی جن میں 350 سپاہی اور 50 ہیڈ کانسٹیبل ہونگے۔
کرم میں قبائل کے درمیان فائربندی، مورچوں پر فورسز اور پولیس کے دستے تعینات
ایڈیشنل چیف سیکٹری منظوری کیلئے جلد وزیر اعلی کو سمری ارسال کرینگے اور ایکس سروس مین کی بھرتی پر عمل در آمد ہوتے ہی مین شاہراہ پر پولیس پوسٹیں بھی قائم کی جائینگی۔
واضح رہے کہ پاراچنار شہر سے 60 کلومیٹر فاصلے پر واقع علاقہ بگن اور لوئر علیزئی کے لوگ اُس وقت مورچہ زن ہوئے جب 21 نومبر کو مسافر قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا، اس حملے کے نتیجے میں 7 خواتین، 3 بچوں سمیت 43 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
واقعہ کے بعد حالات معمول سے باہر ہوگئے اور فریقین ایک دوسرے خلاف مورچہ زن ہیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر لشکر کشی بھی کی، جس کے نتیجے میں دکانوں اور گھروں کو بھی نقصان پہنچا۔
ضلع کرم کے تین مقامات اپر کرم کے گاؤں کنج علیزئی اور مقبل ، لوئر کرم کے بالش خیل اور خار کلی سمیت لوئر علیزئی اور بگن کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور 125 کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔
بھاری اور خودکار اسلحہ کے استعمال کے باعث مختلف مقامات میں خوف و ہراس رہا، متعدد دیہاتوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔