’غیرآئینی کام کیوں چاہتے ہیں؟‘ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست خارج
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
مولوی اقبال حیدر نے مؤقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمے کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے نے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں، امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔
سوموٹو لینے کا اختیاراب بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے، جسٹس محمد علی مظہر
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔
بعدازاں آئینی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف درخواست پر رجسڑار افس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کردی۔
سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست خارج
دوسری جانب عدالت عظمیٰ کے آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیئے، آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے درخواست خارج کردی۔
سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار
ادھر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے تمام سرکاری عہدے داروں کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں؟ آپ نے متعلقہ اداروں سے کیوں نہیں رجوع کیا۔
درخواست گزار نے کہا کہ کوئی نہیں سنتا، اس لیے سپریم کورٹ آیا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہرچیزلے کرسپریم کورٹ پہنچ گئے۔
سپریم کوٹ کے آئینی بینچ نے 18 مقدمات کی سماعت مکمل کرلی، 15 کیسز خارج
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے کسی سرکاری افسران کی نشاندہی نہیں کی، کسی کا نام نہیں لکھا،
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کون سا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں، اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیراعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹرین سب کو نکال دیں، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ سسٹم تباہ ہو چکا ہے سچ کوئی نہیں سننا چاہتا۔
بعدازاں عدالت نے درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
ٹرائل مکمل کرنے کیلیے ٹائم فریم طے کرنے کا کیس
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے اعلیٰ عدالتی فورمزپرٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کے معاملے پر سماعت کی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جاکر قانون سازی کروا لیں، جس پر درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔
بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع، سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی قرار دینے اور آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل سمیت مجموعی طور پر 2 ہزار سے زائد مقدمات آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کیے تھے۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کے تقرر کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔