سپریم کورٹ کا ملک میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی پر اظہار تشویش، رپورٹ طلب
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کام کا آغاز کردیا، عدالت عظمیٰ نے ملک میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاق سمیت تمام صوبوں سے روک تھام سے متعلق اقدامات پر رپورٹ طلب کرلی، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ 1993 سے چل رہا ہے، کاغذی کارروائی سے کام نہیں چلے گا، عملی اقدامات کریں۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے کیسز کی سماعت کا آغاز کر دیا، سپریم کورٹ میں آئینی کیسز سے متعلق سماعت میں سب سے پہلے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے، اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ تھیں۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ماحولیات سے متعلق تمام معاملات کو دیکھیں گے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں، جسٹس نسیم حسن شاہ کو خط آیا تھا کہ اسلام آباد کوصنعتی زون بنایا جا رہا ہے۔
سپریم کوٹ کے آئینی بینچ نے متعدد درخواستیں خارج کردی، جرمانے بھی عائد
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ماحولیاتی آلودگی صرف اسلام آباد نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے، پنجاب اور اسلام آباد میں دیکھیں کیا حالت ہوگئی ہے، صوبوں کو ساتھ ملا کر چلیں گے تو ہی کچھ نتیجہ نکلے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ماحولیاتی تبدیلی اتھارٹی کا چیئرمین کیوں تعینات نہیں ہوسکا؟ چیئرمین تعینات ہوگا تو ہی اتھارٹی فعال ہوگی، گاڑیوں کا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی بڑی وجہ ہے، کیا دھویں کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
جسٹس نعیم اختر کا کہنا تھا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے باعث کھیت کھلیان ختم ہو رہے ہیں، کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، قدرت نے ہمیں زرخیز زمین دی ہے لیکن سب اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، آپ اپنی نسلوں کے لیے کیا کرکے جا رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا پنجاب کی حالت دیکھیں سب کے سامنے ہے، اسلام آباد میں بھی چند روز قبل ایسے ہی حالات تھے، پورے ملک کو ماحولیات کے سنجیدہ مسئلے کا سامنا ہے، پیٹرول میں کچھ ایسا ملایا جاتا ہے جو آلودگی کا سبب بنتا ہے۔
جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا انوائرمنٹ پروٹیکشن اٹھارٹی اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہی؟ 1993 سے معاملہ چل رہا ہے، اب اس معاملے کو ختم کرنا ہو گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ مانسہرہ میں جگہ جگہ پولٹری فارم اور ماربل فیکٹریاں کام کر رہی ہیں، صرف دفاترمیں بیٹھ کرکام نہیں ہوتا فیلڈ میں جانا پڑتا ہے، سوات میں چند ایسے خوبصورت مقامات ہیں جو آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات پر وفاق تمام صوبوں سے رپورٹ طلب کر لی جبکہ آئینی بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا پر سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آئینی بینچ میں مقدمات کی سماعت کی کاز لسٹ جاری کی تھی جس کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ 14 اور 15 نومبر کو مجموعی طور پر 34 مقدمات کی سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری آئینی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر مقدمات کی کاز لسٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مقدمات سماعت کے لیے مقرر کیے گئے تھے جن میں ایک مقدمہ سال 1993 کا بھی ہے۔
کاز لسٹ جاری ہونے سے ایک روز قبل رجسٹرار نے روسٹر جاری کر دیا تھا جس میں کہا گیا کہ جسٹس عائشہ ملک عدم دستیابی کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہوں گی۔
5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا۔
26 ویں ترمیم کی روشنی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا پہلا اجلاس ہوا تھا، جس میں آئینی بینچز میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔
جسٹس امین الدین کی تقرری کی حمایت میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا مشورہ دیا تھا، اجلاس کے دوران آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر ووٹنگ کرائی گئی، کمیشن کے 12 میں سے 7 ارکان نے 7 رکنی آئینی بینچ کے حق میں ووٹ دیا تھا۔