Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی، نیا مسودہ سامنے آگیا

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا
اپ ڈیٹ 20 اکتوبر 2024 06:17pm

وفاقی کابینہ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دے دی ہے،۔ جس کا مسودہ بھی سامنے آگیا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی جس میں آئینی ترمیم پر تفصیلی مشاورت ہوئی اور صدر کو اعتماد میں لیا گیا۔

مسودے میں کیا ہے؟

نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججزکی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے 4 سینئر ججز ہونگے، جوڈیشل کمیشن میں ممبران پارلیمنٹ بھی ہونگے۔

آئینی ترمیم میں نئے آرٹیکل 9 اے کا اضافہ کیا گیا ہے، نئے آرٹیکل کے تحت ہر فرد کو صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کا حق ہوگا۔

مسودے کے مطابق سود یکم جنوری 2028 تک مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔

ہمارے پاس بہت سے آپشنز دستیاب ہیں، وزیر اطلاعات

اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ حکومت نے اپنا مسودہ منظور کر لیا ہے، کابینہ نے اس مسودے کی منظوری دی جو پیپلزپارٹی، حکومت اور اتحادی جماعتوں نے مل کر بنایا۔

اس سے قبل وفاقی وزیراطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے جواب نہ آنے کی صورت میں پلان بی تیار کرلیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہمارے پاس بہت سے آپشنز دستیاب ہیں، آپشن اے پر عمل نہ ہوا تو بی ورنہ سی بھی موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک آپشن کے تحت آئینی ترمیم منظور ہو جائے گی، تمام تیاریاں مکمل ہیں، آج یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔

علاوہ ازیں مشیربرائے سیاسی اموررانا ثنا نے کابینہ اجلاس سے قبل میڈیا گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہر حال میں وفاقی کابینہ مسودے کی منظوری دے گی، ٹی آئی ڈائیلاگ اورجمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتی۔

انہوں نے کہاکہ اتفاق رائے ہوتا ہے توہماری خواہش ہے مولانا صاحب مسودہ پیش کریں، مولانا صاحب کی طرف سے حتمی جواب موصول ہوچکا، آج ہر حال میں وفاقی کابینہ مسودے کی منظوری دے گی۔

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کہتے ہیں آئینی ترمیم پر ووٹنگ آج ہی ہوگی، ترمیم شدہ مسودہ آج کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔

علاوہ ازیں وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے ایم کیو ایم وفد کو ترمیمی مسودے پر بریفنگ دی۔ وفاقی وزیراطلاعات عطاء تارڑ نے کہا کہ ہمارے پاس بہت سے آپشنز دستیاب ہیں، آپشن اے پر عمل نہ ہوا تو بی ورنہ سی بھی موجودہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی ایک آپشن کے تحت آئینی ترمیم منظور ہو جائے گی۔

آئینی ترمیم کے 26 نکاتی مسودے کی تفصیلات

بعد ازاں، اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آج 26 ویں آئینی ترمیم پالیمینٹ میں پیش ہونے جارہی ہے۔ یہ وہی 26 نکاتی متفقہ مسودہ ہے جو پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے منظور کیا تھا اور جس پر پہلے سیاسی اتفاق رائے کروایا گیا تھا۔

26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ف نے اس مسودے میں پانچ ترامیم تجویز کی ہیں جن کا تعلق آئین میں موجود اسلامی شقوں میں وضاحت کے لیے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے 12 رکنی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں آٹھ ایم این ایز اور چار سینیٹر شامل ہوں گے۔

وزیرِ قانون کے مطابق اس کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ یہ کمیٹی دو تہائی اکثریت کے ساتھ جو چیف جسٹس کے لیے نام تجویز کرکے وزیرِ اعظم کو بھیجے گی۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک مقرر کیا گیا ہے۔

وزیر قانون کے مطابق ’ان تجاویز میں وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی تقرری کے بارے میں ایک شق شامل کی گئی ہے۔‘

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کا دورانیہ دو سال سے کم کرکے ایک سال تجویز کی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شریعت کورٹ کی سود کے متعلق فیصلے کو پالیسی میں شامل کرنے کے لیے اسے آئین میں شامل کیا گیا۔

وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ شرعی کورٹ کی اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت سے متعلق موجود ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ کابینہ اور اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر جے یو آئی ان ترامیم کو اسمبلی کے فلور پر پیش کرتی ہے تو ہم اس پر ووٹ کریں گے۔

ان کے مطابق آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ اور صوبائی سطح پر آئینی بینچوں کا مکینزم بھی بنایا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صوبوں میں آئینی بینچوں پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے اس کی منظوری دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز پی پی پی کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

وزیرِ قانون کے مطاق پی پی پی کا کہنا تھا کہ اس صوبے کی اسمبلی کو حق ہونا چاہیے کہ اگر اس صوبے کی ہائی کورٹ کی آئینی بینچ تشکیل دینا چاہے تو وہ کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جو جوڈیشنل کمیشن بنایا گیا ہے اس کے پاس ہو گا۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ اس مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان اور چار سینیئر ترین ججوں کے علاوہ چار پالیمینٹیرینز بھی شامل ہوں گے جن میں سے دو سینیٹ اور دو قومی اسمبلی سے ہوں گے۔

ان میں سے ایک سینیٹر اور ایک ممبر قومی اسمبلی کا تعلق حزبِ اختلاف سے ہوگا جبکہ وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے بدستور اس کمیشن کا حصہ ہیں۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے مسائل کی نمائندگی کے لیے ایک اقلیتی یا خاتون ممبر بھی شامل کی جائیں گی جن کا تعلق پارلیمان سے نہیں ہوگا۔ اس ممبر کا انتخاب سپیکر اسمبلی کریں گے۔

اس کے لیے شرط ہوگی کہ وہ بطور ٹیکنوکریٹ سینیٹر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

ان کے مطابق جوڈیشل کمیشن صوبائی چیف جسٹس کی مشاورت سے ججوں کی کارکردگی کو جانچنے کا فارمولا مرتب کرے گی۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر آئین اجازت دیتا ہے کہ پانچ پانچ ٹیکنکل ایڈوائزرز رکھ سکتے ہیں۔ اب صوبائی ایڈوائزر کو بھی صوبائی اسمبلی میں پیش ہونا ہوگا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی بھی اس آئینی پیکج کا حصہ ہے۔

PMLN

پاکستان

26th Constitutional Amendment