تعلیمی اداروں میں ہراسگی سے متعلق کیس، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل ذاتی حیثیت میں طلب
لاہور ہائیکورٹ میں لاہور کے تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات سے متعلق اعلی سطح تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت میں عدالت نے آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی رجسٹرار کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے شہری اعظم بٹ کی درخواست پر سماعت کی ۔ درخواست گزار کی جانب سے رانا سکندر ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ایک فل بنچ میں ایک کیس چل رہا ہے، ہم نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ نجی کالج واقعے کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائیں، اس بچی کی زندگی تباہ کر دی، چاہے اس کے ساتھ واقعہ ہوا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئی جی پنجاب عدالت کو بتائیں کہ ایسی ویڈیوز اور تصاویر پھیلنے کے بعد پولیس نے ایکشن کیوں نہیں لیا ؟ اینٹی ریپ ایکٹ تو متاثرہ بچی کا نام پبلشر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا آئی جی پنجاب اتنا بے خبر تھا اس نے تصاویر اور ویڈیو وائرل ہونے دیں ؟
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ہدایت کی کہ تمام افسران ریکارڈ سمیت کل عدالت میں پیش ہوں جبکہ آئی جی پنجاب پنجاب یونیورسٹی میں خودکشی کے حوالے سے بھی رپورٹ کریں۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ہمیں پنجاب یونیورسٹی واقعہ کا ہاتھ سے لکھا ہوا روزنامچہ چاہیے۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی نے فلور پر کہا کہ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے مجھے کہا کہ یونیورسٹی میں ہراسگی کے خلاف ہم کچھ نہیں کر پا رہے ؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قسم کی شکایات ہیں ؟ کس طرح کی ہراسگی ہے؟ وکیل نے بتایا کہ میڈیا نے ہراسگی رپورٹ کیا ہے، مجھ تک یہی لفظ پہنچا ہے جبکہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک طالبہ کے خودکشی کا واقعہ سامنے آیا اسکی تحقیقات ہونی چاہیے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.