Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس: جسٹس منیب اختر کا لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار، اعتراضات سامنے آگئے

آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کے خط کے مندرجات سامنے آگئے
اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2024 08:38pm

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر تشکیل کردہ لارجر میں بیٹھنے سے انکار کردیا ہے، تاہم انہوں نے سماعت سے انکار نہیں کیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے خط میں انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے تشکیل کردہ بینچ کا حصہ نہیں بن سکتا، بینچ میں بیٹھنے سے انکار نہیں کررہا جبکہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کے خط کے مندرجات سامنے آگئے۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت سپریم کورٹ میں شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم کمرہ عدالت پہنچے تاہم جسٹس منیب اختر کمرہ عدالت میں نہیں آئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بینچ میں شامل تھے۔

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ کیس کے حوالے سے لارجر بینچ آج بنا تھا، کیس کا فیصلہ ماضی میں 5 رکنی بینچ نے سنایا تھا۔

جسٹس منیب اختر کا رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط، چیف جسٹس نے خط پڑھا

جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط تحریر کر دیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کا خط پڑھ کر سنایا۔

آئین بنانے والوں نے الیکشن کمیشن کو ادارہ بنایا، وہ چاہیں تو ختم بھی کرسکتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ قانون کا تقاضا ہے نظرثانی اپیل پر سماعت وہی بینچ کرے، سابق چیف جسٹس کی جگہ میں نے پوری کی، جسٹس اعجازالاحسن کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا گیا، ہم جسٹس منیب اختر سے درخواست کریں گے کہ بینچ میں بیٹھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب نے لکھا ہے کہ میں آج اس کیس میں شامل نہیں ہوسکتا، انہوں نے لکھا ہے کہ ان کا خط اس نظر ثانی کیس میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ابھی اٹھ رہے ہیں، جسٹس منیب اختر کو درخواست کررہے ہیں کہ وہ بنچ میں شامل ہوں، جسٹس منیب اختر نے آج مقدمات کی سماعت کی ہے وہ ٹی روم میں بھی موجود تھے۔

چیف جسٹس ان کا آج کی سماعت میں شامل نہ ہونا ان کی مرضی تھی، ہم کل دوبارہ اس نظرثانی کیس کی سماعت کریں گے، امید کرتے ہیں کہ جسٹس منیب اختر کل سماعت میں شامل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جسٹس منیب کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے ورنہ بینچ کی تشکیل نو ہو گی، امید ہے جسٹس منیب اختر دوبارہ بینچ میں شامل ہو جائیں گے، جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، دونوں صورتوں میں کل کیس کی سماعت ہوگی۔

جسٹس منیب اختر کا خط

آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منیب اختر کے خط کے مندرجات سامنے آگئے۔

خط کے متن کے مطابق آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس آج 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا، 5 رکنی ینچ 23 ستمبر کی ججز کمیٹی میں ترمیمی آرڈیننس کے تحت تشکیل دیا گیا، ترمیمی آرڈیننس کے تحت بینچز کی تشکیل پر سینئر جج نے خط میں آئینی سوالات اٹھائے۔

خط کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے آئینی سوالات کے جواب میں سینئر جج کو خط لکھا مگر اپنے خط میں آئینی سوالات کا جواب نہیں دیا، افسوس کی بات ہے چیف جسٹس کے خط پر ایک مہم چلی۔

جسٹس منیب اختر نے مزید لکھا کہ آرٹیکل 63اے نظرثانی معاملے پر چیف جسٹس پہلی کمیٹی میں اقلیت تھے، کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ میں چیف جسٹس نے سینئرجج کی سربراہی میں بینچ تشکیل دینے کی رائے دی، چیف جسٹس اب بینچ کے سربراہ کیوں بنے؟ وجوہات سامنے نہیں آئے۔

خط کے مطابق لارجر بینچ میں ایڈہاک جج جسٹس مظہر عالم میاں خیل کو شامل کیا گیا، 19 جولائی کی ججز کمیٹی میں ایڈہاک ججز کے امور طے کرلیے تھے، یہ درست ہے کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے مگر اب جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی بینچ میں شمولیت آرٹیکل 182 کے خلاف ہے۔

جسٹس منیب اختر کے خط کے مطابق 63 اے نظرثانی سماعت کیلئے تشکیل بینچ میں موجودہ حالات میں شمولیت سے معذرت کرتا ہوں، میری معذرت کو کیس سننے سے انکار نہ سمجھا جائے، میرا خط 63 اے نظر ثانی کیس کی فائل کا حصہ بنایا جائے، بینچ میں عدم موجودگی کا غلط مطلب نہ لیا جائے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس منیب کا خط عدالتی فائل کا حصہ نہیں بن سکتا، ایسے خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی روایت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مناسب ہوتا جسٹس منیب اختر بینچ میں آکر اپنی رائے دیتے، میں نے اختلافی رائے کو ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے، نظر ثانی کیس 2 سال سے زائد عرصہ سے زیر التوا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 63 اے کا مقدمہ بڑا اہم ہے، جسٹس منیب اختر رائے کا احترام ہے لیکن ایک بار بینچ بن چکا ہو تو کیس سننے سے معذرت صرف عدالت میں ہی ہو سکتی ہے۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے کمیٹی پر تحفظات کا اظہار کردیا اور کہا کہ کمیٹی تب ہی بینچ بنا سکتی ہے جب تینوں ممبران موجود ہوں۔

آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر

بعدازاں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں پر سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے پر نظرثانی اپیلوں کو 23 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

یاد رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔

اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔

آرٹیکل 63 کیا ہے؟

آرٹیکل 63 اے آئین پاکستان کا وہ آرٹیکل جو فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد اراکین اسمبلی کو اپنے پارٹی ڈسپلن کے تابع رکھنا تھا کہ وہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہ کر سکیں اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کے اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے۔

فروری 2022 میں سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے سوال پوچھا کہ جب ایک رکن اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن اسمبلی نااہل ہو جاتا ہے، لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ بھی ہے کہ اس کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا جائے۔

آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ اور ججز روسٹر جاری

دوسری جانب سپریم کورٹ پرنسپل سیٹ اسلام آباد کے لیے آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ اور ججز روسٹر جاری کردیے گئے ہیں، آئندہ ہفتے پرنسپل سیٹ پر 7 ججز بینچ مقدمات کی سماعت کریں گے۔

روسٹر کے مطابق بینچ نمبر ایک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال پر مشتمل ہوگا، بینچ نمبر 2 میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہوں گے۔

بینچ نمبر 3جسٹس منیب اختر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل ہوگا، بینچ نمبر 4 میں جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں، بینچ نمبر 5 جسٹس امین الدین،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل ہوگا۔

بینچ نمبر 6 میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس ملک شہزاد احمد شامل ہوں گے، بینچ نمبر 7 جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل ہوگا۔

کاز لسٹ کے مطابق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ججز کی پینشن سے متعلق کیس کی سماعت بھی آج ہوگی۔

Supreme Court

اسلام آباد

Article 63 A

Election Tribunal

Punjab Election Tribunals

article 63 a judgement