پریکٹس اور پروسیجر آرڈیننس اور مخصوص نشستوں پر قانونی جنگ تیز، عدالتوں میں درخواستیں
پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا، درخواست میں استدعا کی گئی کہ ترمیمی آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیا جائے۔ دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس یوسف علی سعید نے دوران سماعت ریمارکس دیے ہیں کہ فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔
چوہدری احتشام الحق ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست دائر کر دی۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں سیکریٹری وزارت قانون، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری کابینہ کو فریق بنایاگیا ہے۔
ترمیمی آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیا جائے
درخواست گزار نے استدعا کی کہ ترمیمی آرڈیننس کو آئین سے متصادم قرار دیا جائے اور آرڈیننس کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دیا جائے جب کہ درخواست پر فیصلے تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کو معطل کیا جائے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بھی قرار دے چکی کہ آرڈیننس صرف ہنگامی حالات میں ہی جاری ہوسکتا۔
آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیرٹرائل عوام کے آئینی حقوق میں شامل ہے
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آرڈینینس کو ذریعے عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے، آرٹیکل 9 میں عوام کو ازاد عدلیہ سے رجوع کرنے کی آزادی ہے جب کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیرٹرائل عوام کے آئینی حقوق میں شامل ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ آرڈینینس سے اضافی اختیارات دیے جارہے جس کا روٹین میں استعمال پارلیمنٹ کے اختیارات کو کم کررہا ہے، آرڈینینس سے آزاد عدلیہ کے اختیارات پر اثر پڑےگا، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر منفی اثر پڑےگا۔
دوسری جانب پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج ہونے پر دلائل کے بعد درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے جبکہ جسٹس یوسف نے ریمارکس دیے کہ درخواست پرفیصلہ آج ہی جاری کیا جائے گا۔
ابراہیم سیف الدین ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈریننس اسمبلی میں پیش ہی نہیں کیا گیا ہے اور ایکٹ میں ترمیم عدلیہ پر براہِ راست حملہ ہے۔
Comments are closed on this story.