آئینی ترمیم کیلئے حکومت کا نمبر گیم پورا نہ ہوسکا؟ وفاقی کابینہ، سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر گزشتہ روز آئینی ترمیمی بل منظور کرانے کی کوشش کل ناکام رہی تاہم حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد آج قومی اسمبلی میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیمی بل کے منظور ہونے کے قویٰ امکان ہیں۔
حالیہ دو روز کے دوران حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے متعدد مرتبہ نمبر گیم پورا ہونے کا دعویٰ کیا لیکن اتوار کو بھی اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہونے والا اجلاس شروع ہوتے ہی آج دوپہر ساڑھے 12 بجے تک تک ملتوی کردیا گیا۔ علاوہ ازیں سینیٹ اجلاس آج صبح ساڑھے 11 بجے ہوگا۔
واضح رہے کہ حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرلی ہے اور جمیعت علماء اسلام (جے یو آئی) کے تحفظات دور کردیے ہیں، جس کے بعد نواز شریف اور وزیراعظم کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات منسوخ ہوگئی۔ گزشتہ روز اجلاس ملتوی ہونے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ لگتا تو ایسا ہی ہے کہ نمبر پورے نہیں تھے۔
شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمان سے دو ملاقاتیں
آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے منظوری کے لیے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے، چند روز کے دوران وزیراعظم شہباز شریف دو مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر چکے ہیں جبکہ صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی سربراہ جے یو آئی سے ملاقات کر کے آئینی ترمیم میں ساتھ دینے کی درخواست کی تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ رات پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی تھی۔
حکومت نے فضل الرحمان کے تحفظات دور کردیے
آئینی ترمیم پر حکومت نے جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کردیے، حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان بلاول بھٹوزرداری نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
جس کے بعد آج جمعیت علماء اسلام کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا، جس میں سینیٹر کامران مرتضی نے ترمیم شدہ مسودہ مولانا فضل الرحمان کے حوالے کیا، مولانا فضل الرحمان نے پارلیمانی پارٹی کواعتماد میں بھی لیا۔
اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان آئینی ترمیم سے متعلق حکومت کا ساتھ دیں گے یا نہیں یہ فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ آئینی ترمیم ایک جامع پیکج ہے جس میں آئینی عدالت بنائی جائے گی، آئینی عدالت کے لیے ججز کی تقرری کا بھی طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئینی عدالت کے لیے نئے سرے سے ججز کی تقرری ہو گی، آئینی عدالت بنانے کا مقصد عام سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
گزشتہ رات ہونے والی ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے اختلافی معاملات کو سلجھایا جس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومت کے نمبر پورے ہیں، منحرف ارکان کے ووٹ سے متعلق بھی ترامیم کی جا رہی ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے لیے بھی مسودہ تیار ہے۔
حکومتی ذرائع نے سینیٹ میں بھی آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی طارق فضل چوہدری نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے نمبر پورے ہیں۔
بی این پی مینگل کے دو ووٹ کی اہمیت
ایک طرف قومی اسمبلی میں حکومت کی تگ و دو جاری ہے، تو دوسری جانب سینیٹ میں بی این پی مینگل کے دو ووٹ اہمیت اختیار کرگئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے ووٹ کیلئے اختر مینگل سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور آئینی ترمیم کےحق میں ووٹ دینے کی درخواست کی۔
ذرائع کے مطابق بی این پی مینگل نے لاپتا افراد کی بازیابی تک ووٹ نہ دینے کا اعلان کردیا اور پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے وزیر اعظم سے آئینی ترمیم کا مسودہ مانگ لیا۔
نواز شریف کی واپسی
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف وطن واپس آچکے ہیں اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت بھی کریں گے، وزیر اعظم شہباز شریف نے نواز شریف کا وزیراعظم ہاؤس میں استقبال کیا اور دونوں کے درمیان آئینی اصلاحات کے مجوزہ پیکج پر بات چیت ہوئی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں حمزہ شہباز شریف بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے نواز شریف کو مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطوں پراعتماد میں لیا۔
مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ منظور، چیف جسٹس کو ایکسٹینشن نہ دینے کا فیصلہ، آئینی عدالت، مرضی کےجج
اجلاس بار بار تاخیر کا شکار
آئینی پیکج میں ردوبدل کا سلسلہ آخری وقت تک جاری رہا، آخری وقت میں آئینی ترامیم کے مسودے میں تبدیلیاں کی گئیں اور اسی وجہ سے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والا وفاقی کابینہ کا اجلاس، قومی اسمبلی اجلاس اور سینٹ اجلاس بار بار تاخیر کا شکار ہوا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ اجلاس کے لیے 3 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا، لیکن وفاقی وزرا اجلاس میں شرکت کے لیے ابھی بھی نہیں پہنچے۔
کمیٹی روم کے باہر موجود عملے کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس ابھی ہولڈ پر ہے، کب تک اجلاس شروع ہوگا ابھی طے نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب کر رکھا تھا جس کے لیے پہلے 12 بجے کا وقت دیا گیا تھا، بعدازاں وقت میں تبدیلی کرتے ہوئے اجلاس سہ پہر 3 بجے طلب کیا گیا تھا جو کہ تاحال نہ ہوسکا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔
قومی اسمبلی اجلاس کا وقت تبدیل
قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اہم اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا گیا، اجلاس جو کہ صبح 11 بجے ہونا تھا، اس کا وقت پہلے شام 4 بجے کیا گیا اور پھر کہا گیا کہ اجلاس رات 8 بجے ہوگا، لیکن وہ وقت بھی نکل گیا۔
قومی اسمبلی اجلاس کے وقت میں تبدیلی اسپیشل پارلیمانی کمیٹی کی خصوصی سفارش پر کی گئی، خصوصی اجلاس کچھ وقت جاری رہا، جس میں کمیٹی میں شامل اراکین نے اپنی اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا۔
اس کے بعد سیاسی جماعتوں کی پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس ہوئے۔
خصوصی کمیٹی نے صبح 10 بجے کی میٹنگ کے بعد اسپیکر سے درخواست کی تھی کہ چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے وقت درکار ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے کمیٹی کی درخواست پر آج کے اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے اجلاس کے وقت کی تبدیلی کا نوٹس جاری کردیا۔
سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل
قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد سینیٹ کے اجلاس کا وقت بھی تبدیل کردیا گیا، پہلے یہ وقت شام 4 بجے تھا، پھر 7 بجے ہوا اور اب کہا جا رہا ہے رات 3 سے 4 بجے ہوگا۔
ذرائع کے مطابق حکومتی تجویز پر سینیٹ اجلاس کا وقت تبدیل کیا گیا، سینیٹ اجلاس کے وقت کی تبدیلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
سینیٹ سیکریٹریٹ نے اجلاس کا 5 نکاتی ایجنڈا جاری کردیا، آئینی ترمیم سے متعلق کوئی آئٹم ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔
سینیٹ اجلاس کے ایجنڈے میں 2 توجہ دلاؤ نوٹس میں شامل ہیں، اس کے علاوہ نائب وزیر اعظم اسحق ڈار کی وقفہ سوالات معطل کرنے سے متعلق ایک تحریک بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
دونوں ایوانوں کے ایجنڈا میں آئینی ترمیم شامل نہیں! حکومت آج کیا حربہ استعمال کرسکتی ہے
ایوان میں صدارتی خطاب پر صدر آصف علی زرداری کے تشکر سے متعلق تحریک بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔
ن لیگ کا سینیٹ و قومی اسمبلی میں ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی مین اپنے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے اراکین قومی اسمبلی کو جبکہ سینیٹ میں ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے ن لیگ کے سینیٹرز کو مراسلہ بھیجا ہے۔
مراسلے میں ن لیگ کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو آج ایوان میں حاضر رہنے اور آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے تمام ممبران کے لیے آئینی ترمیم میں ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔
قانون پارلیمنٹ بناتی ہے، نمبرز پورے ہوں گے تو ترمیم پاس ہوگی، چیئرمین سینیٹ
پارلیمانی لیڈرز کے مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی رکن ووٹ ڈالنے سے اجتناب نہ کرے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی کو اجلاس میں شرکت کی ہدایت
پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کو دونوں ایوانوں کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز کے سیکرٹری جنرل سید نیر حسین بخاری نے پارٹی کے تمام سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کے نام ایک خط لکھ کر انہیں ہدایات جاری کی ہیں۔
نیر حسین بخاری نے پارٹی کے تمام سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کو ہدایت کی ہے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اپنی شرکت یقینی بنائیں ۔
پی پی ارکان کو یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق کسی بھی قانون سازی یا بل پر ووٹ دیں۔یہ خط سید نیر حسین بخاری کے دستخط کے ساتھ جاری کیا گیا ہے۔
ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترامیم آج پیش کیے جانے کا امکان
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق آئینی ترامیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے، آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججوں کی مدتِ ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے اور ہائیکورٹس کے ججوں کی مدتِ ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کرنے کی تجویز شامل ہے جبکہ جبکہ چیف جسٹس کی مدت میں 3 سال کی توسیع ہوگی، جج تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے۔
ممکنہ قانون سازی کے مسودے میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک بنانے کی تجویز آئینی ترمیم کا حصہ ہوگی۔
پارلیمان میں نمبرز کس کے حق میں ہیں؟
قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ حکومتی گنتی 211 ہے، سینیٹ میں 64 ووٹ درکار ہوں گے جبکہ حکومتی گنتی 54 ووٹ موجود ہیں۔
مجموعی طور پر قومی اسمبلی کی 211 حکومتی نشستوں میں مسلم لیگ ن کے 110، پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم کے 22، آئی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ ق کے 4-4 ارکان شامل ہیں جبکہ مسلم لیگ ضیا اور بی اے پی کے 1-1 رکن بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر 101 ارکان موجود ہیں جن میں سنی اتحاد کونسل کے 80، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان، جے یو آئی ف کے 8، بی این پی، مجلس وحدتِ مسلمین اور پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے 1-1 رکن بھی اپوزیشن بینچوں کا حصہ ہیں۔
ججز کی ریٹائرمنٹ مدت بڑھانے کی آئینی ترمیم پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا، رانا ثنا اللہ
آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو مزید 13 ارکان کی حمایت درکار ہے، جے یو آئی ف کے 8 اراکین شامل ہونے پر بھی 5 ووٹ مزید درکار ہوں گے۔
Comments are closed on this story.