Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

لاپتہ طالبعلم کی بازیابی: اسلام آباد ہائیکورٹ کے سخت ریمارکس

پولیس کی عدالت میں آ کر سچ بولنے کی قابلیت نہیں ہوتی، آپ چاہتے ہیں کہ ایک 17 سال والا سچ بولے؟ عدالت
اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2024 05:48pm

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ سٹوڈنٹ کی بازیابی کے بعد پولیس رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ۔ حساس اداروں کو بھی موبائل نمبرز اور گاڑیاں ٹریس کرنے سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے مغوی کی واپسی پر کیس ختم نہیں ہو جاتا، اگر کوئی آ کر یہ کہہ دے کہ شمالی علاقہ جات چلا گیا تھا تو کیا کیس ختم ہو جائے گا؟یہ پتہ لگانا ہے کہ 17 سالہ لڑکے کو کون لے کر گیا اور کہاں رکھا گیا؟ پولیس کی عدالت میں آ کر سچ بولنے کی قابلیت نہیں ہوتی، آپ چاہتے ہیں کہ ایک سترہ سال والا سچ بولے؟ پھر مجھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پارٹی بنا کر کارروائی آگے بڑھانے دیں۔

4 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا عثمان فیضان کی بازیابی کیس میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کو حساس ادارے سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا تھا، دوران سماعت جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ گھر میں ویگو ڈالے آ گئے، بندہ اٹھا لیا مگر اسٹیشن ہاؤس افسر ( ایس ایچ او) سمیت کسی کو پتا ہی نہیں۔

اس سے ایک روز قبل عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو مغوی عثمان فیضان کا فون نمبر اور گاڑی ٹریس کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستارنے 11 ستمبر تک آئی جی اسلام آباد کو فیضان عثمان کی بازیابی کی مہلت دے رکھی تھی۔ جسٹس بابر ستار 11 ستمبر کو فیضان عثمان کیس کی سماعت کریں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نےلاپتہ فیضان عثمان کی بازیابی کے بعد تفتیش آگے نا بڑھنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو فوری عدالت طلب کر کے کہا کیا میرے آرڈر میں کوئی ابہام تھا ؟

آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ کوئی ابہام نہیں تھا ، تمام خفیہ اداروں سے بات کی ہے۔ پی ٹی اے اور آئی بی کو تحریری طور پر دو نمبرز کے ڈیٹا کے لیے لکھا ۔ سی ڈی آر کا تجزیہ آنا ہے، آئی بی اور پی ٹی اے سے انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈ مانگا ہے ۔

آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ لاپتہ فیضان عثمان کے واپس آنے کے بعد چھ دفعہ ایس پی ، تفتیشی ، ایس ایچ او ان کے والد کے پاس گئے لیکن لڑکے سے ہماری ملاقات نہیں کروائی گئی ۔انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہیڈز سے بھی ملا ہوں ۔

جسٹس بابر ستار نے کہا پولیس کی عدالت میں آ کر سچ بولنے کی قابلیت نہیں ہوتی، آپ چاہتے ہیں کہ ایک سترہ سال والا سچ بولے؟ پھر مجھے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پارٹی بنا کر کارروائی آگے بڑھانے دیں۔

آپ ایک یونیفارمڈ افسر ہیں کچھ تو خیال کریں۔ ایک اور افسر آ کر بتا رہا ہے کہ لڑکے کی ایک ویڈیو آ گئی تھی۔ دو منٹ میں پتہ چل جاتا ہے کہ کس آئی پی سے ویڈیو اپلوڈ ہوئی ہے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا ٹوئٹر اکاؤنٹ کا پتہ لگانے کے لیے پی ٹی اےسے ہماری میٹنگ ہوئی ہے ۔ عدالت نے کہا آپ نے رپورٹ دینی تھی کہ گاڑیاں کس کی تھیں۔ یہ پولیس کی نااہلی ہے یا پولیس یہ کام کرنا نہیں چاہتی؟ آئی جی نے کہا پولیس نہ نااہل ہے اور کام نہ کرنے والی بات بھی نہیں ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا یہ بازیابی کی درخواست تھی بندہ واپس آ گیا تو درخواست نمٹا دیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کِس نے آپ کو کہا ہے کہ بازیابی کی درخواست بندہ واپس آنے پر غیرموثر ہو جاتی ہے؟ لوگوں کو اٹھا کر لے جاتے فیملیز کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ تمام متعلقہ ادارے 7 دنوں کے اندر اندر تفصیلی رپورٹ عدالت کو جمع کرائیں، واپس آنے والے فیضان کو شامل تفتیش کریں اور عدالت کے سامنےپیش کریں۔ ایمان مزاری نے استدعا کی کہ مغوی شدید ڈراماٹائز ہے اسے فی الحال شامل تفتیش نہ کیا جائے۔

Islamabad High Court

missing person

justice babar sattar

MISSING PERSONS CASE