دنیا کے کون کون سے ممالک اسرائیل کو کتنا اسلحہ دے رہے ہیں
غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے بعد مغربی حکومتوں پر دباؤ بڑھا کہ وہ تل ابیب کو ہتھیاروں کی ترسیل روک دیے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل ہتھیاروں کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے لیکن اس کی فوج درآمد شدہ طیاروں، گائیڈڈ بموں اور میزائلوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی رہی ہے جسے ماہرین نے حالیہ تاریخ کی سب سے شدید اور تباہ کن فضائی مہمات میں سے ایک قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حملوں میں بچوں، خواتین سمیت 40 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ ادھر برطانیہ نے اسرائیل کو فوجی سازوسامان میں 30 فیصد کمی کا اعلان کردیا۔
امریکا
امریکا اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا اب تک کا سب سے بڑا ملک ہے، جس نے اسے دنیا کی سب سے زیادہ تکنیکی طور پر جدید ترین فوج بنانے میں مدد کی ہے۔۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل کے بڑے روایتی ہتھیاروں کی درآمدات میں امریکہ کا حصہ 69 فیصد تھا۔
امریکا اسرائیل کو 10 سالہ معاہدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر کے سالانہ فوجی امداد فراہم کرتا ہے جس کا مقصد اپنے اتحادی کو پڑوسی ممالک پر ”معیاری فوجی برتری“ برقرار رکھنا ہے۔
مئی میں امریکا نے پہلی بار اسرائیل کو ہتھیاروں کی کھیپ روک دی، کیونکہ کانگریس میں امریکی صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے اور حامیوں میں اسرائیل کے جنوبی غزہ کے شہر رفح پر زمینی حملے کے منصوبے پر تشویش بڑھ گئی تھی۔
امریکی حکام نے کہا کہ 1800، 2000 اور 500 پاؤنڈ وزنی بموں کی فراہمی اسرائیل کو ان خدشات کے پیش نظر روک دی جائے گی اگر تل ابیب انہیں گنجان آباد شہری علاقوں میں استعمال کرتا ہے تو عام شہری جاں بحق ہو سکتے ہیں۔
جولائی میں امریکی حکام نے کہا تھا کہ 500 پاؤنڈ وزنی بموں کی ترسیل کی اجازت دی جائے گی، لیکن شہری ہلاکتوں پر مسلسل تشویش کے باعث 2 ہزار پاؤنڈ وزنی بموں کو روکا جائے گا۔
پھر گزشتہ مہینے جبائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کو مطلع کیا کہ اس نے اسرائیل کو 20 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔
جرمنی
ایس آئی پی آر آئی کے مطابق جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کا اگلا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے، جو 2019 اور 2023 کے درمیان درآمدات کا 30 فیصد حصہ ہے۔
2022 میں اسرائیل نے جرمنی کے ساتھ 3 ارب یورو کے معاہدے پر دستخط کیے تاکہ تین جدید، ڈاکار کلاس ڈیزل آبدوزیں خریدیں، جن کی فراہمی 2031 کے بعد متوقع تھی۔ وہ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزوں کی جگہ لیں گے جو فی الحال اسرائیلی بحریہ کے زیر انتظام ہیں۔
گزشتہ برس یورپی ملک کی اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت 326.5 ملین پاؤنڈ تھی جو کہ 2022 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے، ان برآمدی لائسنسوں کی اکثریت 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد دی گئی۔
جرمن حکومت نے جنوری میں کہا تھا کہ فروخت میں 306.4 ملین یورو مالیت کا فوجی سازوسامان اور 20.1 ملین یورو کے ”جنگی ہتھیار“ شامل ہیں۔
اٹلی
اٹلی اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن ایس آئی پی آر آئی کے مطابق 2019 اور 2023 کے درمیان اسرائیل کی درآمدات میں اس کا حصہ صرف 0.9 فیصد رہا۔ اطلاعات کے مطابق ان میں ہیلی کاپٹر اور بحریہ کے توپ خانے شامل ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایک پریشر گروپ دی کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ (CAAT) کا کہنا ہے کہ 2022 میں اٹلی کی طرف سے اسرائیل کو فوجی سامان کی برآمدات اور لائسنسز کی مالیت 17 ملین یورو تھی۔
میگزین Altreconomia نے قومی شماریات بیورو ISTAT کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2023 میں ”ہتھیاروں اور گولہ بارود“ کی فروخت 13.7 ملین یورو تھی۔
برطانیہ
دسمبر 2023 میں برطانیہ کی حکومت نے کہا کہ اسرائیل کو فوجی سامان کی برطانوی برآمدات دیگر ممالک کے مقابلے میں ”نسبتاً کم“ ہے جو 2022 میں 55 ملین پاؤنڈ تھیں۔
!( . )[https://i.aaj.tv/large/2024/09/040925493ddaf5f.png]
محکمہ برائے کاروبار اور تجارت کے ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد 2023 میں 18.2 ملین پاؤنڈ تک گر گئی۔ 7 اکتوبر 2023 سے 31 مئی 2024 کے درمیان فوجی سامان کے لیے 42 ایکسپورٹ لائسنس جاری کیے گئے جبکہ 345 لائسنس موجود تھے۔
کاروبار اور تجارت کے محکمے نے کہا کہ لائسنس کے تحت آنے والے فوجی سازوسامان میں فوجی ہوائی جہاز، فوجی گاڑیاں اور جنگی بحری جہازوں کے اجزاء شامل ہیں۔
اسرائیل کی جنگی صنعت
اسرائیل نے امریکی مدد سے اپنی دفاعی صنعت بھی قائم کی ہے اور اب وہ دنیا میں ہتھیاروں کے نویں سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر درجہ بندی کر رہا ہے، جس کی توجہ بڑے پیمانے پر ہارڈ ویئر کے بجائے جدید تکنیکی مصنوعات پر مرکوز ہے۔
ایس آئی پی آر آئی کے مطابق اسرائیل نے 2019 اور 2023 کے درمیان عالمی فروخت کا 2.3 فیصد حصہ حاصل کیا، بھارت (37فیصد)، فلپائن (12فیصد) اور امریکہ (8.7فیصد) تین اہم وصول کنندگان ہیں۔
اسرائیل میں امریکی گولہ بارود کی تعداد
اسرائیل میں ایک وسیع امریکی اسلحہ ڈپو بھی ہے جو 1984 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ علاقائی تنازع کی صورت میں اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگی سامان کی پیشگی رسائی ہو۔
پینٹاگون نے روسی حملے کے بعد تقریباً 155 ایم ایم کے 3 لاکھ گولہ باردود اسرائیل سے یوکرین بھیجے۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق، 2023 میں اسرائیل کی دفاعی برآمدات کی مالیت 13 بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔
Comments are closed on this story.