جیل میں بدسلوکی کیخلاف بشریٰ بی بی کی درخواست سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو ارسال
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی جیل بدسلوکی کے خلاف درخواست سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بھیجوا دی، جسٹس میاں گل اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ 13 جولائی کو ہی بشریٰ بی بی کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا محض اتفاق تھا؟ آپ کہہ رہے ہیں 13 جولائی بشریٰ بی بی کی میجک ڈیٹ نہیں ہے؟ ان کا کیس 108 تحائف ہیں تو کیا نیب 108 گرفتاریاں ڈالے گی؟ اور نیب اسی روز گرفتاری ڈالے گی جس دن ملزمہ کو دوسرے کیس سے ریلیف ملے گا؟۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل شہباز کھوسہ نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو 31 جنوری کو توشہ خانہ ون کیس میں سزا ہوئی جو معطل ہو چکی ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تھینکس ٹو اسٹیٹ، تھینکس ٹو امجد پرویز، میں کہہ رہا ہوں نا، اسٹیٹ کے بیان پر سزا معطل ہوئی، سزا کا فیصلہ ابھی برقرار ہے۔
وکیل نے کہا کہ مجھے اگر موقع ملتا تو دلائل دیتا کیونکہ توشہ خانہ ون میں 342 ہوئی ہی نہیں تھی۔
بشریٰ بی بی کی 9 مئی سے متعلق 12 مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست خارج
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کب اپنے انڈیپنڈنٹ کریکٹر کو حاصل کریں گے؟ کیا 13جولائی کوہی بشری بی بی کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا محض اتفاق تھا؟ آپ کہہ رہے ہیں 13جولائی بشری بی بی کی میجک ڈیٹ (magic date) نہیں ہے؟ ان کا کیس یہ ہےکہ 108 تحائف ہیں تو کیا نیب 108 گرفتاریاں ڈالے گی؟ نیب اسی روز گرفتاری ڈالے گی جس دن ملزم کو دوسرے کیس سے ریلیف ملے گا؟۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بشریٰ بی بی تفتیش میں تعاون نہیں کر رہی تھیں، 13 جولائی کو ہی ان کی گرفتاری محض اتفاق تھا۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے خلاف راولپنڈی میں 11، اٹک اور اسلام آباد میں ایک ایک مقدمہ درج ہے۔
عدالت نے بشریٰ بی بی کی مزید مقدمات میں گرفتاری روکنے کی درخواست دیگر کیسز کے ساتھ مقرر کرنے اور کیس کی فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ آفس کو بھیجنے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی جیل میں بدسلوکی کے خلاف درخواست سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو بھجوا دی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے حکم دیا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے سامنے یہ پٹیشن بطوردرخواست رکھی جائے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل درخواست پر قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
درخواست گزار بشریٰ بی بی کے وکیل نے کہا کہ بشریٰ بی بی کی درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے، پہلا اعتراض تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل پنجاب حکومت کے ماتحت ہیں، اڈیالہ جیل حکام کےخلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائرنہیں ہو سکتی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بشریٰ بی بی کی درخواست پر آفس کا اعتراض بد نیتی پر مبنی ہے، بشریٰ بی بی اسلام آباد سے نیب کے کیس میں گرفتار ہیں، اڈیالہ جیل اسلام آباد کے قیدیوں کی حد تک اسلام آباد کی جیل ہے، آفس کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ آئندہ درخواستوں پر ایسے فضول اعتراضات نہ لگائیں۔
واضح رہے کہ 8 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں بری ہونے کے باوجود رہا نہ کرنے اور جیل میں بدسلوکی کرنے پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کے خلاف درخواست پر سماعت 12 اگست تک ملتوی کردی۔
13 جولائی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے توشہ خانہ کے نئے ریفرنس میں بانی تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری ڈال دی تھی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محسن ہارون کی سربراہی میں نیب ٹیم نے اڈیالہ جیل میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو گرفتار کرلیا تھا۔
نیب کی انکوائری رپورٹ کے مطابق نیا کیس 7 گھڑیوں سمیت 10 قیمتی تحائف خلاف قانون پاس رکھنے اور بیچنے سے متعلق ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشریٰ بی بی کی سپرٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کیخلاف درخواست پر اعتراضات دور کردیے
بعد ازاں بشری بی بی نے نئے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے دوران ہونے والی بدسلوکی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔
عدت نکاح کیس کے اندراج کا پسِ منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 25 نومبر کو اسلام آباد کے سول جج قدرت کی عدالت میں پیش ہو کر بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف دوران عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، درخواست سیکشن 494/34، B-496 ودیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ میراتعلق پاک پتن کی مانیکا فیملی سے ہے، بشریٰ بی بی سے شادی 1989 میں ہوئی تھی، جو اس وقت پر پُرسکون اور اچھی طرح چلتی رہی جب تک عمران خان نے بشریٰ بی بی کی ہمشیرہ کے ذریعے اسلام آباد دھرنے کے دوران مداخلت نہیں کی، جو متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر اور درخواست گزار کو یقین ہے کہ اس کے یہودی لابی کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں۔
خاور مانیکا نے بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی شکایت کنندہ کے گھر میں پیری مریدی کی آڑ میں داخل ہوئے اور غیر موجودگی میں بھی اکثر گھر آنے لگے، وہ کئی گھنٹوں تک گھر میں رہتے جو غیر اخلاقی بلکہ اسلامی معاشرے کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ازدواجی زندگی میں بھی گھسنا شروع ہوگئے، حالانکہ اسے تنبیہ کی اور غیر مناسب انداز میں گھر کے احاطے سے بھی نکالا۔
خاور مانیکا نے درخواست میں بتایا تھا کہ ایک دن جب اچانک وہ اپنے گھر گئے تو دیکھا کہ زلفی بخاری ان کے بیڈ روم میں اکیلے تھے، وہ بھی عمران خان کے ہمراہ اکثر آیا کرتے تھے۔
انہوں نے درخواست میں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی نے میری اجازت کے بغیر بنی گالا جانا شروع کر دیا، حالانکہ زبردستی روکنے کی کوشش بھی کی اس دوران سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
مزید لکھا تھا کہ بشریٰ بی بی کے پاس مختلف موبائل فونز اور سم کارڈز تھے، جو چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر فرح گوگی نے دیے تھے۔
خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ نام نہاد نکاح سے قبل دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ غیر قانونی تعلقات قائم کیے، یہ حقیقت مجھے ملازم لطیف نے بتائی۔
درخواست میں مزید بتایا تھا کہ فیملی کی خاطر صورتحال کو بہتر کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ضائع گئیں، اور شکایت کنندہ نے 14 نومبر 2017 کو طلاق دے دی۔
خاور مانیکا کی درخواست کے مطابق دوران عدت بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ یکم جنوری 2018 کو نکاح کر لیا، یہ نکاح غیر قانونی اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
مزید لکھا تھا کہ دوران عدت نکاح کی حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کر لیا، لہٰذا یہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے، دونوں شادی سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو طلب کیا جائے اور انہیں آئین اور قانون کے تحت سخت سزا دی جائے۔
11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا تھا۔
Comments are closed on this story.