الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کردی
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عدالت عظمیٰ میں نظرثانی درخواست دائر کردی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ 12جولائی کا مخصوص نشستوں کافیصلہ واپس لے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 12 جولائی کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ میں شامل 8 ججز نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے 2 سینیئر ترین ججز جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے گزشتہ ہفتے سپریم کور ٹ میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی طرف سے دائر مقدمے پر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں اپنا تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کیا تھا۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اپنے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔
15 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر سپریم کورٹ میں دائر کی تھی، جس کے بعد 23 جولائی کو پیپلز پارٹی نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
اس حوالے سے اب الیکشن کمیش نے مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی ٹھان لی۔
ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے پر نظرثانی نظرثانی درخواست دائر کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے 12 جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کردی۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ انصاف کے تقاضوں کے لیے سپریم کورٹ 12 جولائی کے فیصلے پر غور کرکے نظر ثانی کرے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ 12 جولائی کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ واپس لے، الیکشن کمیشن نے آئین وقانون کےمطابق اپنی ذمہ داری سرانجام دی، الیکشن کمیشن نے کسی قانونی و عدالتی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی، سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل کیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے آئین آرٹیکل 218 میں مداخلت نہیں کر سکتی، آئین کی غلط تشریح پر معاملہ آئینی ادارے کو ریمانڈ کیا جانا چاہیئے۔
اس سے قبل ذرائع نے بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن نے قانونی ٹیم کو نظر ثانی اپیل کی تیاری کی ہدایت کر دی جبکہ الیکشن کمیشن آج ہی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اپنے اختیارات کا سپریم کورٹ میں دفاع کرے گا، کمیشن آزاد ارکان کو 15 دن کا وقت دینے پر اعتراض عائد کرے گا۔
ذرائع کمیشن کے مطابق آئین میں آزاد امیدواروں کو 3 دن دیے گئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں 15 دن کا وقت دیا، ریٹرننگ افسران کو پارٹی ٹکٹ جمع نہ کرانے والے امیدوار کیسے تحریک انصاف کے ہو سکتے ہیں؟ صرف کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف لکھنے سے کوئی پارٹی کا امیدوار نہیں ہو سکتا، سپریم کورٹ کے فیصلے میں ابہام بھی اپیل کا حصہ ہو گا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی دستخط اتھارٹی سے متعلق ابہام دور کرنے کے لیے پہلے ہی سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے ابہام پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے آزاد اراکین کے بیان حلفی اور پارٹی وابستگی فارم کی اسکروٹنی بھی شروع کر دی ہے، اسپیشل سیکریٹری کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی اسکروٹنی کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد ارکان کے کاغذات نامزدگی اور بیان حلفی کے دستخط کا جائزہ لیا جائے گا، ضرورت پڑنے پر کمیٹی آزاد ارکان کو بیان حلفی کی تصدیق کے لیے طلب کرے گی۔
کیس کا پس منظر
6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
Comments are closed on this story.