Aaj News

اتوار, ستمبر 08, 2024  
03 Rabi ul Awal 1446  

پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت نہیں مل سکی، محفوظ فیصلہ جاری

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں، اسلام آباد ہائیکورٹ
شائع 26 جولائ 2024 07:10pm

پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد میں آج احتجاج کی اجازت نہیں مل سکی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت نہ ملنےکےخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ جاری کردیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد پی ٹی آئی کی 29 جولائی احتجاج کی درخواست پر وجوہات کے ساتھ فیصلہ کریں، اسٹیٹ کونسل احتجاج کی اجازت نہ دینے کی وجوہات سے متعلق مطمئن نہیں کر سکے، درخواست گزار نے کہا کہ 29 جولائی ایف نائن پارک میں احتجاج کی اجازت دے دی جائے، درخواست گزار نے انڈر ٹیکنگ دی کہ احتجاج پرامن ہو گا کوئی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال نہیں بنے گی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا 18 جولائی سے دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ ہے۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ 29 جولائی احتجاج کی اجازت تب ہی ہو سکتی ہے اگر باقی سیاسی جماعتوں کی لا اینڈ آرڈر صورتحال پیدا نہ ہو۔

اسلام آباد : پی ٹی آئی نے آج کا احتجاج ملتوی کر دیا

فیصلے میں کہا گیا کہ مناسب پابندیوں کے ساتھ آئین میں پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے، کسی اور سیاسی جماعت کے تھریٹ کی بنا پر پٹیشنر پارٹی کے آئینی حقوق سلب نہیں ہوسکتے۔

وزیر اعلیٰ کےپی کے بیانات تضادات کا مجموعہ ہیں، عطا تارڑ، جماعت اسلامی کو مذاکرات کی دعوت

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ جبکہ سماعت کے آغاز پر پاکستان تحریک انصاف کی آج اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت کے لیے دائر درخواست پر ضلعی انتظامیہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ 2 گھنٹوں میں مشاورت مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ آپس میں مشاورت کرکے دوپہر 12:30 بجے تک آگاہ کیا جائے۔

آج کی سماعت کا احوال

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے پی ٹی آئی کو آج 26 جولائی کو اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت ملنے کے لیے عامر مغل کی دائر درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے شعیب شاہین جبکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اسٹیٹ کونسل ملک عبد الرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی درخواست موصول ہوچکی ہے اور اس پر آرڈر آچکا ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں آج اسلام آباد میں تو کوئی دوسرا احتجاج بھی ہے، جس پر اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ اسلام آباد میں دوسرے احتجاج کا مجھے کوئی علم نہیں، انتظامیہ نے اسلام آباد کے اندر احتجاج کرنے کی تمام درخواستیں مسترد کردی، شہریوں کی حفاظت کے لیے اس وقت کسی کو کوئی اجازت نہیں مل سکتی۔

درخواست گزار کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہم نے جلسے کی درخواست دی تھی، این او سی دیا گیا اور منسوخ کردیا گیا، ہماری درخواست پر چیف جسٹس نے ان کو فیصلہ کرنے کی ہدایت کی، جلسے سے متعلق ہماری ان سے بات چل رہی ہے وہ الگ معاملہ ہے، نیشنل پریس کلب کے باہر پُرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں جو ہمارا آئینی حق ہے، احتجاج ، میٹنگز وغیرہ کے لیے اجازت مانگنے کی ضرورت نہیں، ہائیکورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ جس آرڈر کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ دفعہ 144 سے متعلق پاس نہیں ہوا، جس پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیے کہ جو وجوہات آپ بتارہے ہیں ایسا تو پھر کوئی احتجاج کر ہی نہیں سکتا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ قانون میں کہیں لکھا ہے کہ لارج نمبر آف پبلک یا زیادہ تعداد خواتین اکٹھی نہیں ہوسکتیں؟ پریس کلب تو شہر کے دل میں مواقع ہے پھرتو پریس کلب کے باہر احتجاج ہو ہی نہیں سکتا۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے اسٹیٹ کونسل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ پریس کلب کے باہراحتجاج کر ہی نہیں سکتے؟ آپ نے ہمیں قانون سے بتانا ہے کہ اتنے نمبرسے زیادہ لوگ پریس کلب کے احتجاج نہیں کرسکتے؟ یا تو آپ کوئی قانون بنادیں کہ پریس کلب کے باہر اتنے تعداد سے زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔

شعیب شاہین نے کہا کہ اگر یہ ہمیں پریس کلب کے باہر کی اجازت نہیں دیتے تو ایف نائن پارک کا اجازت دیں۔

بعدازاں عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے احتجاج کی اجازت سے متعلق ضلعی انتظامیہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ 2 گھنٹوں میں مشاورت کرکے 12:30 بجے تک عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دے دیا۔

بعد ازاں درخواست پر سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل ایازشوکت اور وکیل شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے نے استفسار کیا کہ کیا کچھ طے پایا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے بتایا کہ اسلام آباد میں آج جماعت اسلامی نے دھرنے کا بھی کہہ رکھا ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ یہ وجہ تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے نہیں لکھی ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ وہ کہاں دھرنا کر رہے ہیں؟ یہ کہاں احتجاج کر رہے ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ انہوں نے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا کہا ہے اور یہ پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔

اس موقع پر شعیب شاہین نے کہا کہ ہمیں ایف نائن پارک کے لیے اجازت دے دیں، جس پر جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے ریمارکس دیے کہ پھر ان کو پیر کے لیے اجازت دے دیں، جماعت اسلامی کو ضلعی انتظامیہ نے کب اجازت دی؟۔

ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جماعت اسلامی کو بھی ہم نے اجازت نہیں دی، جمعیت علمائے اسلام نے بھی جمعہ کے بعد احتجاج کی کال دے رکھی ہے، انہیں ابھی اجازت نہیں دے سکتے، ہم نے پورا اسلام آباد بند کیا ہوا ہے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ کیوں پورا اسلام آباد بلاک کیا ہوا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہم نے دفعہ 144 نافذ کی ہوئی ہے۔

عدالت نے کہا کہ یا تو کہہ دیں کہ آپ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی کبھی اجازت نہیں دینی، آپ کہہ رہے ہیں کہ تاقیامت نہیں ہوگا؟۔

ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ اس کو اتنا لمبا نہ کریں، مختصر بات کریں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اس وقت پورا اسلام آباد بلاک کیا ہوا ہے۔

دورانِ سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ حکومت راستے بند نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، جس پر جسٹس ثمن رعت امتیاز نے پوچھا کہ اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو حکومت احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرے گی؟ حکومت نے دوسری جماعت کو بھی اجازت نہیں دی، تو ان کو روکنے کے لیے کچھ تو کریں گے۔اگر صرف پی ٹی آئی کو اجازت دی جاتی ہے تو پھر تو افراتفری پھیل جائے گی۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کو پیر کو احتجاج کی اجازت دے دیں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پیر کی اجازت نہیں دے سکتے، معلوم نہیں پیر کو کیا حالات ہوں گے۔ اگر جماعت اسلامی کا دھرنا طویل ہو گیا تو پھر اجازت نہیں دے سکتے۔

جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ اگر مگر کی بات نہیں ہو گی حکومت کو بھروسا ہونا چاہیے کہ وہ حالات کنٹرول کر لے گی۔ اس طرح کی باتیں نہ کریں کہ جس سے آپ کی نااہلیت سامنے آئے۔ آپ اتنے بےیارو مدگار ثابت نہ کریں، آپ حکومت ہیں۔ پڑوس میں ہمارے کتنے دشمن بیٹھے ہیں، وہ یہ سنیں گے تو کیا تاثر جائے گا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ دشمنوں سے نمٹ لیں گے، اپنوں کے معاملے میں مشکل پیش آتی ہے۔ جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کہا کہ پھر میں یہ لکھ دوں کہ حکومت بےبس ہے، جو 3 دن میں حالات کنٹرول نہیں کر سکتی؟ ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ اگر عدالت نے آرڈر کرنا ہے تو کر دے، ہم اجازت نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کو احتجاج کی اجازت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیش نظر حکومت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریڈ زون کو سیل کردیا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے کل ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا تھا کہ عمران خان نے سب کو یہ پیغام دیا کہ کل کی جو کال تحریک تحفظ آئین نے دی ہے اس کو کامیاب بنائیں، پر امن احتجاج کریں، ہمارے احتجاج ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔

اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے احتجاج کے پیش نظر اسلام آباد انتظامیہ نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ریڈ زون کو سیل کردیا ہے۔

ریڈ زون کو سیل کرنے کے لیے اسلام آباد کے نادرا چوک، سرینا چوک، ایکس پریس چوک پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ سے کسی احتجاج کی اجازت نہیں۔

Islamabad High Court

PTI protest

justice saman rafat imtiaz

Pakistan Tehreek Insaf (PTI)