عدالت کا صنم جاوید کو مکمل طور پر خاموشی اختیار کرنے کا حکم، گھر جانے کی اجازت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید کو جمعرات تک گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ صنم جاوید گھر جائے اور خاموش رہے۔ عدالت نے کہا کہ جمعرات تک صنم جاوید اسلام آباد کے دائرہ اختیار سے باہر نہ جائیں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو اسلام آباد سے باہر لے جانے سے روکتے ہوئے ساڑھے 5 بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی طلب کیا۔
ساڑھے پانچ بجے صنم جاوید کواسلام اباد ہائیکورٹ پہنچایا گیا جب کہ آئی جی اسلام آباد پولیس اور ڈی جی ایف آئی اے بھی عدالت پہنچے۔ اس کے علاوہ اسد قیصر، حبا فواد اور صنم جاوید کے وکیل بھی عدالت میں موجود تھے۔
صنم جاوید بلوچستان پولیس کے حوالے، والد نے بازیابی کی درخواست دائر کردی
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان پولیس نے صنم جاوید کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی ہے۔
عدالت نے جمعرات تک گرفتاری سے روکنے کے ساتھ صنم جاوید کیخلاف ایک سال کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’صنم جاوید اس دوران ایک بھی لفظ بولیں تو عدالت آپنا آرڈر واپس لے لیگی‘۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ صنم جاوید گھر جائے اور خاموش رہے۔ عدالت نے کہا کہ جمعرات تک صنم جاوید اسلام آباد کے دائرہ اختیار سے باہر نہ جائیں۔
سانحہ 9 مئی : یاسمین راشد، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری کی ایک ایک مقدمہ میں ضمانت منظور
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب صنم جاوید کے والد کی بیٹی کی رہائی کے لیے درخواست پر سماعت کی، صنم جاوید کے والد کے وکیل بیرسٹر میاں علی اشفاق عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل میاں علی اشفاق نے دلائل دیے کہ درخواست گزار کی بیٹی کو غیر قانونی طور پر وکیل کے آفس سے گرفتار کیا گیا تھا، گزشتہ روز مجسٹریٹ نے ان کو کیس سے ڈسچارج کرکے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو فوری واپس لینا چاہیے، انسانی حقوق کمیشن پاکستان
دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل آئے ہیں ؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
وکیل میاں علی اشفاق نے کہا گزشتہ روز 12 ویں ایف آئی آر میں میری موکلہ ڈسچارج ہوئی تھی، لاہور ہائیکورٹ کا تمام مقدمات سے متعلق فیصلہ موجود ہیں، گجرانوالہ جیل کے باہر 13 جولائی کو گرفتار کرلیا گیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرلیا تھا؟ جس پر وکیل علی اشفاق نے جواب دیا گجرانوالہ سے ڈسچارج ہوئی تو اسلام آباد ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا، گزشتہ روز مجسٹریٹ نے ایف آئی اے کیس میں ڈسچارج کیا تو پولیس نے پھر گرفتار کرلیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اس وقت کیا صورتحال ہے؟ تاہم صنم جاوید کی گرفتاری سے متعلق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد لاعلم نکلے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے صنم جاوید کو اسلام آباد سے باہر لے جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں بازیاب کرنے کا حکم دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اسلام آباد او ر ڈی جی ایف آئی اے کو ساڑھے 5 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کیا۔
عدالت نے صنم جاوید کو بھی ساڑھے 5 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
صنم جاوید کیخلاف بلوچستان میں درج 9 مئی کے مقدمے پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے رہنما پاکستان تحریک انصاف صنم جاوید کے خلاف بلوچستان میں درج 9 مئی کے مقدمے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بلوچستان پولیس صنم جاوید کو لے کر عدالت پہنچی، صنم جاوید کو جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس کی کورٹ میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت بلوچستان پولیس نے عدالت سے صنم جاوید کے راہداری ریمانڈ کی استدعا کردی۔
جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر دیکھ لیں، بلوچستان میں 7 اے ٹی اے کی دفعات ہیں ، وکیل صنم جاوید نے بتایا کہ ان کی مؤکل کو کل چار بجے گرفتار کیا، سینئر کونسل نے آنا ہے اس لیے وقفہ کردیا جائے۔
اس پر جج نے کہا کہ زیادہ دیر تک انتظار نہیں کیا جاسکتا، رش کی وجہ سے اس کیس کو رکھ نہیں سکتا، اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر معاون وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت مقرر ہوگئی ہے ، سنیئر کونسل ادھر ہیں ، اسلام آباد ہائی کورٹ میں کوئی ڈائریکشن آسکتی ہے، التوا میں رکھ دیں۔
جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ میں اب اتنا انتظار نہیں کرسکتا اور سماعت ملتوی بھی نہیں ہوسکتی، کوئی آرڈر ہے آپ کے پاس تو دے دیں کہ اس کیس کو رکھا جا سکتا ہے؟
بعد ازاں صنم جاوید روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں استدعا کرتی ہوں کہ انتظار کرلیا جائے ، میں 14 ماہ سے زیادہ عرصے سے گرفتار ہوں، کل میرے بچے خوش تھے کہ میں واپس گھر آرہی ہوں، ہمیں اس وقت بہت کم وقت ملا ہے ، اتنی جلدی میں تیاری بھی ممکن نہیں ہوتی۔
اس پر جج نے کہا کہ 20 منٹ انتظار کرلیتے ہیں، آپ کے سینیئر آجائیں تو دیکھ لیتے ہیں، صنم جاوید نے کہا کہ مجھے کل گرفتار کرتے ہوئے بتایا نہیں گیا کہ کس کیس میں گرفتار کررہے ہیں؟
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 20 منٹ کا وقفہ کردیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر فتح اللہ برکی ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہدایت کی ہے کہ کیس انتظار میں رکھیں، جج مرید عباس نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ ڈائریکشن دی ہے؟ میں کنفرم کرلوں آفس سے، وکیل نےے کہا کہ جی کنفرم کرلیں۔
جج مرید عباس نے اسلام ہائیکورٹ سے کنفرم کرنے کے بعد اظہار حیرانگی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ میں ابھی تک کیس سنا ہی نہیں گیا، آپ کی طرف سے غلط بیانی کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈائریکشن دی ہے۔
بعد ازاں پراسکیوٹر محمد عدنان عدالت کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ ان کی ایما پر بلوچستان میں ایک وقوعہ ہوا جس میں ایک شخص کی موت بھی واقع ہوگئی، ہمیں صرف سفری ریمانڈ چاہیے ، اس میں اور کسی میرٹ کی بات تو ہے نہیں۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے دیگر وکلا کے بولنے پر صنم جاوید نے عدالت کے سامنے اعتراض کرتے ہوئے کہا صرف میرا متعلقہ وکیل ہی میری نمائندگی کرے گا۔
جج مرید عباس نے پی ٹی آئی وکلا سے مکالمہ کیا کہ ملزمہ آپ لوگوں کی نمائندگی کو مان ہی نہیں رہی تو آپ سب باہر چلے جائیں، بعد ازاں پی ٹی آئی وکیل علی بخاری عدالت کے سامنے پیش ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ میں کیس کا ریکارڈ دیکھنا چاہتا ہوں۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان پولیس نے تین دن کا راہداری ریمانڈ مانگا ہے۔
اسی کے ساتھ عدالت نے علی بخاری ایڈووکیٹ کو ریکارڈ دیکھنے کی اجازت دے دی۔
پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 بجے صنم جاوید کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ آپ پہلے بھی غلط بیانی کرچکے ہیں ، ہائی کورٹ سے جب حکم آئے گا دیکھیں گے ، وکیل علی بخاری نے کہا کہ مجسٹریٹ ہونے کے ناطے آپ کے پاس پاور ہے ، آپ حکم کرسکتے کہ صنم جاوید کو اسلام آباد سے باہر نہ لے جایا جائے ، ہم نے ابھی دلائل دینے ہیں ، لیکن پرنسپل کونسل کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں صنم جاوید کے خلاف یہ واردات ہی ڈالی گئی ہے ، میں اس مقدمے کو سیاسی مقدمہ بھی نہیں کہوں گا ، اس مقدمے میں صنم جاوید نامزد نہیں ہے، صنم جاوید کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہوا ہے ، میں ایک عدالتی فیصلہ پیش کرتا ہوں جو اس مقدمے میں پولیس کی فیور میں نہیں ہے، کل عمران خان کی گرفتاری ڈالی گئی تو ان کو تو نہیں لے کر گئے لاہور ، یہ خاتون ہیں ان کو کیوں لے کر جارہے ہیں؟
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ عدالت سفری ریمانڈ کی استدعا منظور کرسکتی ہے تو تو انکار بھی کرسکتی ہے ، اس پر علی بخاری ایڈووکیٹ نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ آپ ضمانت کی طرف آنا چاہتے ہیں ، وکیل نے بتایا کہ جی آپ نے صحیح پکڑا ، ضمانت کی طرف ہی آنا چاہتا ہوں، خاتون ایک سال سے قید میں ہے اس کے بعد ضمنی بیان آرہا ہے، ضمنی بیان سی آر پی سی کا حصہ ہے ہی نہیں، شیخ رشید کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوئٹہ کے مقدمات خارج کردیے تھے ، اس عدالت کے پاس ریمانڈ دینے کے ساتھ ضمانت دینے کا اختیار بھی ہے ۔
وکیل علی بخاری نے کہا کہ قانونی پہلوؤں سے عدالت کو اسسٹ کردیا ہے ، اب اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے ، اس پر ہپراسیکیوٹر نے بتایا کہ عدالت کے سامنے سفری ریمانڈ کا کیس ہے، انہوں نے میرٹ پر بات کرنا شروع کردی ، اس مقدمے میں قتل اور دہشتگردی کی دفعات ہیں ، اس عدالت کے پاس دہشتگردی کی دفعات کے تحت ضمانت دینے کا اختیار ہی نہیں ہے ، تمام عدالتی فیصلے اور میرٹس پر دلائل متعلقہ عدالت میں دیے جاسکتے ہیں ادھر نہیں۔
بعد ازاں وکیل علی بخاری نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ مقدمے کی ضمنی عدالت کے سامنے پڑھی جائے۔
دورانِ سماعت عدالت میں جج مرید عباس نے مقدمے کی ضمنی پڑھی، علی بخاری ایڈوکیٹ کی جانب سے صنم جاوید کے مختلف کیسز میں ضمانت کنفرم اور ڈسچارج کرنے کے فیصلے پڑھے گئے۔
علی بخاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ عدالت اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے تک آرڈر نہیں لکھوا سکتی ، جج مرید عباس نے ریمارکس دیے کہ عدالت سب چیزیں دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔
اسی کے ساتھ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کے بعد عدالت نے صنم جاوید کی موجودگی میں سماعت کا فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا ۔
فیصلے کے مطابق صنم جاوید کے وکلا نے دلائل دیے کہ گرفتاری غیر قانونی ہے ، دورانِ سماعت عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عدالت کو آفیشلی ڈائریکشن آئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کی ڈائریکشن کے مطابق صنم جاوید کو ہائیکورٹ میں پیش کیا جائے، یہ عدالت تب تک کوئی بھی فیصلہ نہیں دے سکتی جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ نہیں آتا، مقامی پولیس کو ہدایت کی جاتی ہے صنم جاوید کو اسلام آباد ہائی کورٹ پیش کیا جائے۔
ایف آئی اے نے صنم جاوید کو ڈسچارج کرنے کا فیصلہ چیلنج کردیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو ڈسچارج کرنے کا فیصلہ اسلام آباد کی عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے صنم جاوید کو ڈسچارج کرنے کا فیصلہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔
ایڈیشنل اینڈ سیشن جج افضل مجوکا کی عدم دستیابی کے باعث کیس کی سماعت ڈیوٹی جج چوہدری عامر ضیا نے کی، ایف آئی اے پراسیکیوٹر اور تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ انٹرنیٹ ایک بغیر بارڈر کے میڈیم ہے جس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، سائبر کرائم کے پاس صنم جاوید کی جانب سے کیے گئے ٹویٹس کے تمام ثبوت موجود ہیں، پاکستان میں ٹوئٹر کا کوئی بھی رجسٹرڈ آفس موجود نہیں ہے اور نہ ہم قانونی چارہ جوئی کے لیے امریکا جا سکتے ہیں۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ روز ملزمہ کے خلاف پیکا ایکٹ 2016 کے تحت درج مقدمے میں جسمانی ریمانڈ کے لیے ڈیوٹی جج کی عدالت پیش کیا گیا، عدالت سے گرفتار ملزمہ کے 6 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، عدالت نے جسمانی ریمانڈ یا جوڈیشل کرنے کے بجائے ملزمہ کو اسی دن مقدمے سے ڈسچارج کردیا۔
درخواست کے مطابق صنم جاوید نے اپنے 2 لاکھ فالوورز والے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ایک ادارے کے سربراہ کو قتل کرنے کی دھمکی دی گئی، ملزمہ اب تک اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی تفصیلات ایف آئی اے کو مہیا نہیں کیں، ملزمہ کا وائس اور ویڈیو انائلسز کرنا ہے، گزشتہ روز کا عدالتی فیصلہ جلد بازی میں قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دیا گیا ہے، عدالت فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
عدالت نے فریقین کو 18 جولائی کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے رہائی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید کو اسلام آباد پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
عدالت نے صنم جاوید کے وکلا کی مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا منظور کرلی تھی اور رہائی کے بعد صنم جاوید گھر روانہ ہوگئی تھیں تاہم کچھ ہی دیر بعد اسلام آباد کی رمنا پولیس نے انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 9 مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا اور اس دوران لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں 9 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے دفتر کو جلانے کے علاوہ فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا جبکہ اس دوران کم از کم 8 افراد ہلاک اور 290 زخمی ہوئے تھے۔
اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں ملوث 1900 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔
9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں یاسمین راشد، محمودالرشید، اعجاز چوہدری کے ساتھ ساتھ صنم جاوید کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
Comments are closed on this story.