Aaj News

اتوار, ستمبر 08, 2024  
03 Rabi ul Awal 1446  

پولنگ ایجنٹس کو فارمز فراہم نہ کرنے والے پریذائیڈنگ افسر کیخلاف کارروائی ہوگی، جج الیکشن ٹربیونل

واقعے کے تہہ تک پہنچنے کے لیے کسی حد تک بھی جائیں گے، جسٹس طارق محمود جہانگیری
شائع 09 جولائ 2024 11:08am

اسلام آباد ہائیکورٹ الیکشن ٹربیونل میں حلقہ این اے 48 کے انتخابی نتائج کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ سول سوٹ نہیں ٹربیونل ہے بیان حلفی لینے سے نہیں روکا گیا، کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے اور کون ذمہ دار ہے، واقعے کے تہہ تک پہنچنے کے لیے کسی حد تک بھی جائیں گے، اگر پریزائڈنگ افسر پولنگ ایجنٹوں کو فارمز نہیں دیتا تو الیکشن ایکٹ کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔**

منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ الیکشن ٹربیونل کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری نے حلقہ این اے 48 سے متعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے امیدوار علی بخاری کی انتخابی عذرداری کی درخواست پر سماعت کی۔

مسلم لیگ (ن) کے حلقہ این اے 48 کے اُمیدوار راجہ خرم نواز نے اپنا جواب، تمام فارمز اور بیان حلفی ٹربیونل میں جمع کروا دیے جبکہ ریٹرنگ افسر کے وکیل نے ٹربیونل سے کہا کہ وہ فارم 45، 46، 47 ،48 لے آئے ہیں، ابھی پراسس میں جمع کر دیے جائیں گے۔

دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پریذائیڈنگ آفیسر سے استفسار کیا کہ الیکشن مینجمنٹ سسٹم کا کیا کیا ہے؟ جبکہ عدالت نے الیکشن ایکٹ کی متعلقہ شق پڑھنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ کے الیکشن ٹربیونلز سے متعلق حکم کے بعد الیکشن اپیلوں پرسماعت روک دی گئی

جج الیکشن ٹربیونل نے کہا کہ پریذائیڈنگ آفیسر نے آپ کوای ایم ایس بھیجے ہیں یا نہیں؟ پریذائیڈنگ افسر پرلازم ہے وہ فارم 45 پولنگ ایجنٹ کودے، اگر فارم 45 پریذائیڈنگ افسر نہیں دیتا تو اس کی وجوہات لکھنی ہیں۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے مزید کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے دیکھنا ہے کہ کچھ غیرقانونی ہوا ہے یا نہیں؟ جس پر راجہ خرم نواز کے وکیل نے کہا کہ درخواست میں اس کا ذکر نہیں کیا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے پریذائیڈنگ افسران کی ذمہ داری ہے وہ پولنگ ایجنٹ کو تمام متعلقہ فارمز مہیا کرے، اگر پریذائیڈنگ افسر فارمز ایجنٹوں کو فارمز نہیں دیتا تو الیکشن ایکٹ کے مطابق کارروائی ہوگی، پریذائیڈنگ افسر 10 پیکٹ بنائے گا اور سب پولنگ ایجنٹوں کے سائن لے گا، اگر ایسا نہیں ہوگا اس کی وجوہات لکھے گا۔

علی بخاری کے وکیل نے کہا کہ ہمیں تو اندر ہی نہیں جانے دیا گیا، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ کیا آپ اور آپ کے ایجنٹ سے ان 10 پیکٹوں پر سائن لیے گئے، اس پر وکیل نے کہا کہ نہ مجھ سے اور نہ میرے ایجنٹ سے سائن لیے گئے، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے اعتراض کیا۔

ٹربیونلز کا قیام: الیکشن کمیشن اور لاہور ہائیکورٹ جتنی جلدی ہو بامعنی مشاورت کریں، سپریم کورٹ

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ یہ سول سوٹ نہیں ، یہ ٹربیونل ہے اس میں بیان حلفی لینے سے نہیں روکا گیا، کسی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو کون ذمہ دار ہے، واقعے کے تہہ تک پہنچنے کے لیے کسی حد تک بھی جائیں گے، اگر کسی سرٹیفائیڈ کاپی چائیے رجسٹرار کو درخواست دے کر لے لے، اگر کوئی عام شہری بھی ریکارڈ دیکھنا چاہتا ہے دیکھ سکتا ہے کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی جرنلسٹ بھی ریکارڈ دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔

بعدازاں الیکشن ٹربیونل نے این اے 48 سے متعلق سماعت 15 جولائی تک ملتوی کردی۔

Islamabad High Court

Election Tribunal

justice tariq mehmood jahangiri

Election Tribunal Change Cse

Tribunal Change Case