Aaj News

اتوار, ستمبر 08, 2024  
03 Rabi ul Awal 1446  

توہین عدالت کیس: وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد، دوبارہ جمع کرانے کا حکم

جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں، عدالت
اپ ڈیٹ 03 جون 2024 04:52pm

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت دی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان بینچ میں شامل ہیں، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ کچھ چیزوں کی نشاہدہی ہو گئی ہے، ہم عدالت میں پیش کردیتے ہیں، جس پر محسن اختر کیانی نے کہا کہ کچھ چیزیں ابھی آنا باقی ہیں۔

ججز کےخلاف مہم: آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی سمیت تمام خفیہ اداروں کے کردار کو دیکھنا ہے، عدالت

جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتہ لگائیں، جو اصل لوگ ہیں ان کا تعین کریں، ہم آرڈر کردیں گے آپ اصل ذمہ داروں کا تعین کریں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مہم کا آغاز کرنے والے لوگوں کے خلاف تحقیقات کریں، آپ نے ان کا تعین کرنا ہے جنہوں نے جج کی فیملی کا ڈیٹا سب سے پہلے شیئر کیا، ہم اس حوالے سے ایک مناسب آرڈر بھی جاری کر دیں گے۔

جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی روز میں 3 مختلف مہم چلائی گئیں؟ اگر ملک دشمنوں کی جانب سے فائیو جی وار شروع کردی جائے، اگر ملک دشمن یہ الزام عائد کردیں کہ آرمی چیف، صدر مملکت توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں اور ان الزامات کے نتیجے میں جلاؤ گھیراؤ ہو، بلڈنگز کو جلا دیا جائے تو کیا آئی ایس آئی ان ملک دشمن عناصر کو ٹریس کر سکے گی یا نہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ ایک ہاں اور نا کا سوال ہے، بتائیں آپ کی استعداد ہے کہ نہیں؟

جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے پاس فائیو جی وار فیئر کے خلاف کوئی سافٹ ویئر موجود نہیں؟ آپ بتائیں کہ فائیو جی وار فیئر کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا وسائل موجود ہیں؟

آڈیو لیکس کیس: جسٹس بابر ستار نے ججز پر اعتراض کی درخواستیں بدنیتی پر مبنی قرار

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات خفیہ ہے تو سربمہر لفافے میں جمع کرا دیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے ایف آئی اے حکام کو کہا کہ آپ نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے، ایف آئی اے نے اس رپورٹ سے بہت بہتر رپورٹ جمع کروائی ہے ، ہم سپیرئیر ایجنسی سے ویسا ہی کام کی توقع کررہے تھے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے واقعی بہت کام کیا ہے۔

عدالت نے مزید استفسار کیا کہ کیا گرین کارڈ والے کو امریکی شہری کہیں گے؟ امیگریشن حکام نے بتایا کہ وہ امریکی شہری نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جج کی انفارمیشن جو صرف ایف آئی اے کے پاس ہوسکتی تھی وہ کسی سسٹم سے نکال کر اپلوڈ ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹریول دستاویز پبلک ہوئی ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے سسٹم سے دستاویزات نکالی جانے پر ڈی جی امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ سسٹم میں معزز جج کی یہ انفارمیشن کتنی بار چیک کی گئی؟ آپ نے بتانا ہے کہ یہ انفارمیشن کیسے لیک ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ ڈی جی امیگریشن کہتے ہیں کہ یہ انفارمیشن ہمارے پاس نہیں ہوتی۔

امیگریشن حکام نے بتایا کہ ہماری تکنیکی ٹیم آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کردے گی، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ انفارمیشن کے لیے لاگ ان کیا گیا ہوگا وہ آپ نے بتانا ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے آئی ایس آئی سے دوبارہ رپورٹ طلب کرلی۔

جسٹس محسن اختر نے کہا کہ آپ نے اسٹینڈ لے لیا ہے کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب امریکا کی شہریت نہیں ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی آر کارڈ ہونے کا مطلب شہریت نہیں ہے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت تین ہفتوں تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کی تاریخ تحریری حکم نامے میں ہوگی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 14 مئی کو سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ہمیں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) سمیت تمام خفیہ اداروں کے کردار کو دیکھنا ہے۔

6 مئی کو جسٹس بابر ستار نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہیں نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا مہم کے بارے میں بتایا تھا، خط میں انہوں نے انکشاف کیا کہ آڈیو لیکس کیس میں مجھے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

اس سے قبل 28 اپریل کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت دی تھی۔

اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔ مزید کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں، جسٹس بابر ستار، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیف جسٹس کے خط کو درخواست میں تبدیل کر کے توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 6 ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کی شکایت کی ہے۔

پاکستان

Islamabad High Court

justice babar sattar