بشکیک میں موجود 12 ہزار پاکستانی طلبہ کی جان کو خطرہ لاحق، ’پڑوسی جتھوں کو ہماری اطلاع دے رہے ہیں‘
کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ہنگامہ آرائی اور بلوے سے وہاں موجود 12 ہزار پاکستانی طلبہ کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
مشتعل کرغز طلبا نے پاکستانی طلبہ کے ہاسٹلز پر حملہ کرکے متعدد کو زخمی کردیا، جتھوں نے آج شام دوبارہ حملے کی دھمکی بھی دی ہے۔
کرغز وزارت صحت کے مطابق گزشتہ رات انتیس زخمی طلبہ کا علاج کیا گیا جبکہ پندرہ افراد کو اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
پاکستانی طلبہ کے مطابق جھگڑا کرغز طالب علموں کی جانب سے مصری طالبات کو ہراساں کرنے پر شروع ہوا جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل افراد کے طلبہ پر تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
کرغز طلبہ اور مقامی افراد کے جھتوں نے پاکستانیوں سمیت غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلز پر حملے کردیے، طلبہ نے چھپ کر جان بچائی اور بجلی بند کرکے بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔
پاکستانی طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم گھروں میں محفوظ نہیں، پڑوسی مقامی افراد کے جتھوں کو موجودگی کی اطلاع دے رہے ہیں۔
بشکیک میں موجود پاکستانی طالب علم قاسم نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ہم فلیٹ سے نیچے پانی لینے کے لیے نہیں جاسکتے پاکستان کیسے جائیں گے، رات ہمارے ہاسٹل پر حملہ کیا گیا، صبح چھ بجے فوج کے آنے پر صورتحال بہتر ہوئی، پولیس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہی۔
انہوں نے پاکستانی حکام کی جانب سے جاری ایمرجنسی نمبرز کے حوالے سے کہا کہ بارہ ہزار طلبہ کے لیے دو نمبر ناکافی ہیں، ہمیں اب بھی ہراس کیا جا رہا ہے۔
بشکیک میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالب علم عبداللہ رضوان نے بھی آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ کرغزستان کے طلبہ اور مقامی افراد چن چن کر سانولی رنگت والے طلبہ کو نشانہ بنارہے ہیں، کئی افراد حالات کا فائدہ اٹھا کر ہوسٹلز میں چوری اور لوٹ مار بھی کررہے ہیں۔
عبداللہ رضوان نے کہا کہ بشکیک میں پاکستانی طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔
ایک اور طالب علم محمد احمد نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہاں ناصرف طالب علموں بلکہ پاکستان سے آئے فیکلٹی اساتذہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں کہ حالات قابو میں ہیں۔
محمد احمد نے کہا کہ یہاں پر بھارتی، مصری اور بنگلادیشی حملوں کی زد میں آرہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے یہاں ویڈیو گیم شروع ہوگئی ہے، لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔
Comments are closed on this story.