ججز کے خط پر 300 وکلا کا چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ
300 سے زائد وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان پر زور دیا ہے کہ عدلیہ کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کا آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت نوٹس لیا جائے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ کسی حکومتی شخصیت کے ریرقیادت تشکیل پانے والے والا تحقیقاتی کمیشن تفتیش کے لیے مطلوب اختیارات اور غیر جانب داری کا حامل نہیں ہوگا۔
آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کا اصل دائرہ کار متعین کرتا ہے اور اسے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں کارروائی کے قابل بناتا ہے، بالخصوص پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق پر عمل کے حوالے سے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 میں سے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان کے نام حیرت انگیز خط میں بتایا تھا کہ رشتہ داروں کو اغوا کرکے ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ججوں کے گھروں میں خفیہ آلات بھی نصب کیے گئے ہیں۔
خط پر دستخط کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان میں محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط کے ایک دن بعد مختلف حقوں نے تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سپریم کورٹ کے ججوں کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔
جمعرات کو وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے ملاقات کی جس میں طے کیا گیا کہ کابینہ کی منظوری سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا۔
ہفتے کو وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن قائم کرنے کی منظور دی۔ اس کمیشن کے سربراہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی ہوں گے۔
یہ کمیشن کسی سرکاری افسر کے اس معاملے میں ملوث ہونے کے بارے میں بھی تحقیقات کرے گا اور کسی ایجنسی، محکمے یا کسی اور ادارے کے ملوث ہونے کی صورت میں کارروائی کی سفارش بھی کرے گا۔ یہ کمیشن اپنی کارروائی سے متعلق معاملات میں آزاد و خود مختار ہوگا۔
اتوار کو 300 سے زائد وکلا نے، جن میں ایمان زینب مزاری، زیناب جنجوعہ، عبدالمعز جعفری، سلمان اکرم خواجہ، تیمور ملک ثاقب جیلانی شامل ہیں، ایک بیان جاری کیا۔ یہ پورا بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی شیئر کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس بیان پر دستخط کرنے والے قانون کی بالا دستی، عدلیہ کی خود مختاری اور انصاف یقینی یقینی بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وکلا برادری اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبر پختونخوا بار کونسل اور بلوچستان بار کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی مکمل حمایت کرتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں سے مکمل اظہارِ یکجہتی کرتی ہے اور ان کے جرات مندانہ اقدام کو سراہتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ متعلقہ معاملے میں موزوں کارروائی کی جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا الزام نہیں۔ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے تھے جس پر انہیں غیر شائستہ انداز سے ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔
وکلا نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا اچھی بات ہے مگر اب اس سے کہیں آگے جاکر حقیقتاً کچھ ایسا کرنا ہے جس سے واقعی معاملات درست ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی سطح کی زیادتیوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے درمیان سرپرست و محافظ کی حیثیت کے حامل ججوں ہی کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جو پورا عدالتی نظام ہی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔ ججوں کو بے خوف ہوکر انصاف کرنے سے روکا جائے تو وکلا سمیت پورے لیگل سسٹم کی قدر ختم ہو جاتی ہے۔
وکلا نے اپنے بیان میں پاکستان بار کونسل اور دیگر تمام بار ایسوسی ایشن پر زور دیا ہے کہ وکلا کا ایک کنونشن ہنگامی بنیاد پر بلایا جائے تاکہ عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کے لیے اتفاقِ رائے سے اجتماعی لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔ بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ایک بینچ تشکیل دے کر اس معاملے کو سُنے اور کارروائی براہِ راست نشر کی جائے۔
وکلا کے بیان میں سپریم کورٹ پر زور دیا گیا ہے کہ تمام ہائی کورٹس سے ہم آہنگی اختیار کرتے ہوئے راہ نما اصول بھی وضع کیے جائیں تاکہ عدلیہ کی خود مختاری گھٹانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے شفاف انسٹیٹیوشنل میکینزم تیار کیا جاسکے۔
Comments are closed on this story.