عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے فل کورٹ اجلاس کی صدارت کی جس میں انہوں نے ساتھی ججز کو وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر اعتماد میں لیا۔
اجلاس کے بعد جاری ہے کہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ عدالتی امور میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ تاہم اعلامیے میں ججوں کے خط پر ایک رکنی انکوائری کمیشن کے ذریعے تحقیقات پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت ایک گھنٹے پچاس منٹ تک چلنے والے فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شریک ہوئے۔
فل کورٹ اجلاس سے پہلے جمعرات کو چیف جسٹس اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات بھی ہوئی۔
وزیراعظم چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ پہنچے جہاں دونوں شخصیات کے درمیان ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ 20 منٹ تک جاری رہی۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ عدلیہ میں ایگزیکٹو کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت برادشت نہیں ہوگی۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے 26 مارچ 2024 کو ایک خط موصول ہوا۔ مذکورہ خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، چیف جسٹس نے اسی دن ایک میٹنگ بلائی۔
چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز رات 8 بجے چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پہنچے، افطار کے بعد ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی میٹنگ میں تمام ججز کے تحفظات کو فرداً فردا سنا گیا۔
اگلے دن، 27 مارچ 2024 کو، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کی، اور اس کے بعد چیف جسٹس نے سینئر جج کے ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان بار کے سینئر ترین ممبر سے ملاقات کی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام ججز کا فل کورٹ اجلاس اسی دن شام 4 بجے چیف جسٹس کی سربراہی میں بلایا گیا۔ فل کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے بھیجے گئے خط میں اٹھائے گئے مسائل پر غور کیا۔
اعلامیے کے مطابق فل کورٹ کے ارکان کی اکثریت میں اتفاق رائے پایا گیا کہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر چیف جسٹس وزیراعظم پاکستان سے مذکورہ خط میں اٹھائے گئے مسائل پر ملاقات کر سکتے ہیں اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
وزیر اعظم نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ 28 مارچ 2024 کو دوپہر دو بجے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس، سینئر پیونی جج اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے دوران چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ججز کے معاملات اور عدالتی کام میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
انہوں نے اور سینئر پیونی جج نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی ستون ہے جو قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھتا ہے۔
اجلاس کے دوران پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت ایک انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز دی گئی جس کی سربراہی اس معاملے کی انکوائری کے لیے غیرمعمولی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ جج کریں گے۔
اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے عہد کیا کہ مذکورہ کمیشن کی تشکیل کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور سینئر پیونی جج کے اظہار خیال کی مکمل تائید کی اور انہیں مزید یقین دلایا کہ وہ آزاد عدلیہ کو یقینی بنانے کے لیے دیگر مناسب اقدامات کریں گے جس میں متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کرنا اور از سو موٹو نمبر 7/2017 (فیض آباد دھرنا فیصلہ) پیراگراف 53 کے مطابق قانون سازی شروع کرنا شامل ہے۔
اس کے بعد، پچھلے اجلاس کے تسلسل میں چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی اور ججز کو وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں ہونے والی باتوں سے آگاہ کیا۔
گزشتہ روز بھی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا تھا جس میں ججز کے خط پر غور کیا گیا اور ججز کے خط کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی خط کے معاملے پر انکوائری کرانے کا اعلان کردیا ہے۔
کمیشن کیلئے سابق جج کون؟
ججز خط کے معاملے پر حکومت کی جانب سے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا جس کی سربراہی کے لئے سابق جج تصدق جیلانی اور سابق جج ناصرالملک کے نام زیرغور ہیں۔
ذرائع کے مطابق دونوں سابق چیف جسٹسز کے نام سر فہرست ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن کو تحقیقات سے متعلق مکمل آزادی حاصل ہوگی۔
Comments are closed on this story.