Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پاک افغان سرحد پر گولہ باری سے نقل مکانی، دفتر خارجہ کی آپریشن کی تصدیق، قبول کرتے ہیں بعض علاقے ہمارے کنٹرول میں نہیں، کابل

کرم کے سرحدی علاقے پر پکتیا سے مارٹر گولے فائر
اپ ڈیٹ 18 مارچ 2024 06:39pm
تصویر : اے ایف پی
تصویر : اے ایف پی

پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں شدید اضافہ ہوگیا ہے۔ افغان صوبے پکتیا سے پاکستان کے ضلع کرم میں مارٹر گولے فائر کیے گئے ہیں جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں ابادی کی نقل مکانی شروع ہو گئی ہے۔افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی فضائیہ کی بمباری کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں۔

یہ صورت حال شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چوکی پر دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق افغانستان کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں پاکستان میں کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے پکتیکا اور خوست صوبوں میں بمباری کی ہے جہاں اٹھ افراد مارے گئے۔

ادھر کابل حکومت کے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی لیکن ایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ہفتہ کی صبح دہشت گرد حملے اور اس کے بعد لڑائی میں پاک فوج کے ایک کرنل اور ایک کیپٹن سمیت 7 اہلکار شہید ہوئے تھے۔

اس حملے کے بعد صدر آصف علی زرداری اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے سخت بیانات جاری کیے گئے۔ حملے سے ایک روز قبل ہی پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف علی درانی نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ اٹھایا تھا ۔

طلوع نیوز کے مطابق آصف علی درانی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’ہم افغانستان میں کسی غیر ملکی گروہ کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے۔‘

آصف علی درانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 5 سے 6 ہزار لوگوں کو پناہ حاصل ہے۔

تاہم ترجمان طالبان نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہم کسی کو افغان سرزمین پر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ایک بات ہمیں قبول کرنی چاہیے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے جہاں پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں اورایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔‘

اتوار کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف دہشت گردی ہورہی ہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں،پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا علم ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس کے لیے سب کو متحد ہونا ہو گا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی میرعلی میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پرحملے میں شہید لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی اور کیپٹن محمد احمد بدر کے جنازے میں شرکت کے دوران کہا تھا کہ ، ’ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہم دہشتگردوں جوانوں کے بہائے گئے خون کا خراج لیں گے میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمارے بیٹوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘

سرحد پر جھڑپیں

دونوں جانب سے بیانات کے بعد پیر کی صبح سرحدی علاقوں میں کشیدگی کی اطلاعات سامنے آئیں۔

عینی شاہدین کے مطابق پیر کی صبح افغانستان کے صوبہ پکتیا سے پاکستان کے سرحدی علاقے بوڑکی پر بلا جواز مارٹر توپ سے حملہ کیا گیا اور تین گولے فائر کیے گئے جن میں سے ایک گولہ سرکاری سکول کے قریب گرا جبکہ ایک جنرل سٹور اور ارہ مشین کو بھی نقصان پہنچا تاہم کوئی جان نقصان نہیں ہوا۔

واقعے کے بعد ہائی سکول بوڑکی کو مزید حملوں کے خدشے کے پیش نظر بند کر دیا گیا۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور قبائلی لشکر بھی فورسز کا ساتھ دینے کے لیے اگلے مورچوں پر پہنچ گیا ہے دو طرفہ فائرنگ میں بھاری اور خود کار ہتھیاروں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

طوری بنگش قبائل کے رہنما جلال بنگش نے افغانستان سے بلا جواز حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر مستقبل میں اس قسم حملوں سے اجتناب کیا جائے

پاک افغان سرحدی علاقے میں فضائی حملوں کی اطلاعات بھی زیرگردش ہیں جن کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

پشاور کے سینئر صحافی طاہر خان نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’افغان طالبان کے اہلکاروں نے پاکستانی سرحد کے قریب کئی علاقوں میں بمباری کی تصدیق کی ہے تاہم واٹس ایپ گروپوں میں افغان طالبان کو اس معاملے پر بیانات دینے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر مناسب ہوا تو ترجمان ذبیح اللہ مجاھد اس پر بیان جاری کریں گے۔‘

ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی طالبان کے ایک عہدیدار نے بھی بمباری کی تصدیق کی ہے تاہم افغان اور پاکستانی حکام نے سرکاری طور پر تاحال کچھ نہیں بتایا۔

طاہر خان نے دعوی کیا کہ ایک افغان اہلکار کے مطابق عبداللہ شاہ نامی شخص کے گھرکو نشانہ بنایا گیا جووزیرستان کا رہائشی ہے۔ افغان اہلکاروں کے مطابق وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔

kabul

پاکستان

zabihullah mujahid