Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل قانون کے مطابق نہیں تھا، سپریم کورٹ نے متفقہ رائے دے دی

لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں ہونے والی اپیل کی عدالتی کارروائی منصفانہ نہیں تھی، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 06 مارچ 2024 08:55pm
عدالت نے مختصرا رائے سنائی تو بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہوگئے۔ اسکرین گریب
عدالت نے مختصرا رائے سنائی تو بلاول بھٹو زرداری آبدیدہ ہوگئے۔ اسکرین گریب

سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پر رائے سنا دی ہے۔ عدالتیٰ عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو آئین کے مطابق مصنفانہ ٹرائل نہیں ملا اور ان کے خلاف مقدمہ قانون کے مطابق نہیں چلایا گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھٹو ریفرنس پر اپنے مختصر رائے تحریری شکل میں پانچ صفحات میں جاری کی، جس میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

رائے سنانے کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ریفرنس پر تمام ججوں کی رائے متفقہ ہے۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر 12 سال بعد اپنی رائے سنائی۔

مارچ 1978 میں لاہورکی عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزاسنائی تھی، فروری 1979 میں سزائے موت کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے 4 تین کی نسبت سے مسترد کردی تھی۔

سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کے حق میں جبکہ 3 ججوں نے پھانسی کے فیصلے کی مخالفت کی تھی، تاہم اس متنازع فیصلے کے 2 ماہ بعد اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ذوالفقار بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔

آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا اختیار مشاورتی ہوتا ہے اور صدارتی ریفرنس پر رائے اسی آرٹیکل کے تحت دی جاتی ہے۔ بھٹو ریفرنس 12 سال پہلے دائر کیا گیا تھا تاہم یہ طویل عرصے تک زیرالتوا رہا ہے اور حالیہ مہینوں میں اس پر سماعتیں ہوئیں۔

بدھ کو رائے سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ کیس کے فیصلے کو بدل نہیں سکتے، فیئر ٹرائل میں خامیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل قانون کے مطابق نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ تاریخ کے کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کی وجہ سے صورتحال سامنے آئی، جب تک غلطیوں کوتسلیم نہ کریں خودکودرست نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ریفرنس میں پانچ سوال اٹھائے گئے، سوال یہ ہے کہ فیئرٹرائل ملا یا نہیں، ذوالفقار بھٹو کو فیئرٹرائل کا موقع نہیں ملا، صدارتی ریفرنس کسی اور حکومت نے واپس نہیں لیا، ہم ججز پابند ہیں کے قانون کے مطابق فیصلہ کریں، ججز بلا تفریق فیصلہ کرتے ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اگرچہ عدالت اس فیصلے کو تو منسوخ نہیں کر سکتی تاہم اس کی متفقہ رائے یہی ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان کے خلاف لاہور ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں ہونے والی اپیل کی عدالتی کارروائی منصفانہ نہیں تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلے کو دیکھنے کا موقع دیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ذوالفقار بھٹو کو آئین کے مطابق فیئرٹرائل کا موقع نہیں ملا۔

صدارتی ریفرنس پر رائے سنانے والے 9 رکنی لارجر بنچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 9 رکنی لارجر بینچ کا حصہ تھے۔

بلاول آبدیدہ ہوگئے

بدھ کو بلاول بھٹو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کی قیادت سپریم کورٹ پہنچی۔

چیف جسٹس نے عدالت کی رائے پر مبنی فیصلے کا مختصر حصہ پڑھ کر سنایا اور اسے سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ تفصیلی رائے بعد میں جاری کرے گی۔

بلاول بھٹو زرداری عدالتی رائے سن کر آبدیدہ ہوگئے۔ بعد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 44 برس بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے۔

یاد رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 4 مارچ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل کرتے ہوئے رائے محفوظ کی تھی۔

گزشتہ سماعت پر عدالتی معاونین، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، رضا ربانی نے صدراتی ریفرنس پر دلائل دیے تھے، اس کے علاوہ احمد رضا قصوری، اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بھی دلائل دیے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایک بینچ ممبر ریٹائر ہو رہے ہیں ہم اپنی مختصر رائے اس سے پہلے سنائیں گے، آج تو نہیں مگر شاید دوبارہ ہم ڈسکس کرنے کے بعد رائے سنانے بیٹھیں۔

ریفرنس کب دائر ہوا؟

اپریل 2011 کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، جس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اعترافی بیان کو بنیاد بنایا گیا جس میں انہوں نے ذوالفقار بھٹو کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پرجنرل ضیا الحق کی حکومت کی جانب سے دباؤ کا ذکرکیا تھا۔

صدارتی ریفرنس پر ابتدائی 5 سماعتیں جنوری سے نومبر 2012 کے دوران سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجربینچ نے کیں۔

مزید پڑھیں

احمد رضا قصوری کی فتح؟ بھٹو کیس کی سماعت الیکشن کے بعد تک کیلئے ملتوی

بھٹو کی پھانسی پر صدارتی ریفرنس کی 11 برس بعد ہونے والی سماعت جنوری تک ملتوی، 9 عدالتی معاونین مقرر

ذوالفقار بھٹو ریفرنس: پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا

پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اور آخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی، تاہم اس وقت پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا، اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔

نومبر 2012 کے بعد سے دوبارہ سماعت کا آغاز گزشتہ برس 12 دسمبرسے کیا تھا۔ چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پرسات سماعتیں کیں۔ عدالت نے 4 مارچ کوسماعت مکمل کرتے ہوئے رائے محفوظ کی تھی اور آٹھویں سماعت میں رائے سنائی۔

اس دوران 9 عدالتی معاونین ، پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، رضا ربانی ،احمد رضا قصوری، اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔

Supreme Court

اسلام آباد

zulfiqar ali bhutto

Justice Qazi Faez Isa

Chief Justice Qazi Faez Isa

Zulfiqar Ali Bhutto Reference