عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کی گرفتاری پر توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری پر توہین عدالت کیس میں ایس ایس پی آپریشن کی جانب سے دی گئی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت شیریں مزاری، ان کی وکیل زینب جنجوعہ اور آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر ناصر اکبر خان عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی درخواست تب ہوگی جب میں اس کے خلاف کارروائی کروں گا جو ذمہ دار ہوگا، سیکریٹری داخلہ اس کیس میں کیسے شامل ہیں؟
شیریں مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ نے کہا کہ ڈی سی راولپنڈی نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھا تھا، ہمارا کیس ہے کہ یہاں اسلام آباد میں کس نے توہین عدالت کی ہے؟
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کمشنر کی طرف سے احکامات جاری کیے گئے تھے، جب یہ آرڈر جاری ہوا تو اسٹیٹ کونسل عدالت میں تھے، ہماری کوشش تھی عدالت سے تحریری حکم نامہ لیں کیونکہ اسلام آباد پولیس عدالت کے باہر تھی۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ جو ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن توہین عدالت کا ذمہ دار کون ہے وہ بتائیں، ہم یہ نہیں چاہتے کہ کسی جونئیر افسر کو سزا دی جائے، ایک رپورٹ ایس ایس پی آپریشنز کی جانب سے جمع کروائی گئی تھی۔’
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایس ایس پی آپریشنز کی رپورٹ کا جائزہ لیا اور ریمارکس دیے کہ اگر ضرورت پڑی تو آپ کو دوبارہ بلا لوں گا، ورنہ فیصلہ دے دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے شیریں مزاری کی عدالتی حکم کے باوجود گرفتاری کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد پولیس کو ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کرنے سے روک دیا تھا تاہم عدالتی حکم کے باوجود گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری تھی۔
شیریں مزاری کی گرفتاری
شیریں مزاری کو سب سے پہلے گزشتہ سال 12 مئی کو دارالحکومت کی پولیس نے 9 مئی کے احتجاج کے بعد مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت ان کے اسلام آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا تھا۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی کو ان کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی نظر بندی کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا تاہم پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
17 مئی کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے انہیں اسلحے سے متعلق کیس میں بری کر دیا اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں اسی روز انہیں تیسری مرتبہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے 22 مئی کو ان کی نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد گجرات پولیس نے انہیں چوتھی بار اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔
23 مئی کو گجرات کی عدالت کی جانب سے ان کی رہائی کے حکم کے چند لمحوں بعد ہی شیریں مزاری کو بغیر نمبر پلیٹ ویگو میں لے جایا گیا جس پر پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی پانچویں گرفتاری ہے۔
اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کو فوری رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے دوبارہ گرفتار نہ کرنے کے احکامات جاری کیے تھے، عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو گرفتار کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کے خلاف توہین عدالت کیس دائر کیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کے لیے گزشتہ سال 28 ستمبر کو کیس کی سماعت مقرر کی تھی، جس پر آج فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
Comments are closed on this story.