سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرلی
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرلی، چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد عدالت رائے کو سنائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں، اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 9 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے دلاٸل دیتے ہوئے کہا کہ جب بھٹو کے خلاف کیس چلایا گیا، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ اور بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، اس وقت استغاثہ فوجی آمر جنرل ضیاء تھے، اس وقت اپوزیشن اورحکومت کے درمیان نئے الیکشن کیلئے معاملات طے ہو چکے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا؟ جس پر رضا ربانی نے کہا کہ معاہدے پر دستخط ہونے باقی تھے، لیکن پھر مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبال جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیر افراد ان افراد کے بیانات لیے گئے، جسٹس اسلم ریاض بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر تھے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مارشل لاء آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، مارشل لاء دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے، جس پر وکیل رضا ربانی نے کہا کہ وہ تو بادشاہ تھے مارشل لاء میں جو مرضی کریں۔
وکیل رضا ربانی نے کہا کہ بیگم نصرت بھٹو نے پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں سپریم کورٹ میں چیلنج کیں، جسٹس یعقوب اس وقت چیف جسٹس تھے، جسٹس یعقوب نے جیسے ہی درخواست سماعت کے لیے منظورکی انہیں ہٹا دیا گیا، جسٹس انوار الحق کو چیف جسٹس پاکستان بنا دیا گیا۔
رضا ربانی نے مزید کہا کہ مارشل لاء ریگولیشن کے تحت ججوں نے حلف لے رکھا تھا، ان کے حلف میں سے آئین کا لفظ حذف کر دیا گیا تھا، اس وقت ججز آئین پاکستان کے تحت ججز نہیں تھے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بھی اس وقت آئین کے تحت کام نہیں کر رہی تھیں، بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آج بھٹو ریفرنس پر کارروائی مکمل کریں گے، جس پر رضا ربانی نے کہا کہ جنرل ضیا کا تعصب بھی موجود تھا۔
صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد احمد خان قصوری روسٹریم پر آگٸے۔
احمد خان قصوری نے دلائل کا آغاز کردیا اور کہا کہ بھٹو کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ 1977 میں دائر کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قتل 1974 کا تھا آپ نے اتنا وقت کیوں لیا؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ پہلے کیس بند ہو گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس بھی کافی پہلے بند ہوا آپ تبھی کیوں نہ گئے کہ ناانصافی ہوگئی، آپ نے 3 سال کیوں لیے تھے اس کا جواب کیا ہوگا؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے صورتحال ہی ایسی تھی۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے اور کتنے بہن بھائی موجود تھے 1974 میں؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ ہم 6 بھائی تھے کوئی بہن نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی ایک اچھی اثر رسوخ ،تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں اثر لیتا رہا؟۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل سے مسعود محمود کے بارے میں تفصیلات مانگی تھی؟ کچھ پتہ چلا مسعود محمود کہاں ہے؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ مسعود محمود کے بچوں نے بیرون جانے کی اجازت کے لیے خط لکھا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مسعود محمود کے بچوں کا خط عدالت میں پیش کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ خط تو 1977میں اسوقت کے وزیراعظم کو لکھا گیا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مزید ریکارڈ کے لیے 3 وزارتیں کام کررہی ہے، ایف آٸی اے اور نادرا سے مسعود محمود بارے ریکارڈ مانگا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب بھی تفصیلات ملے عدالت کو آگاہ کیا جائے، جس شخص کو آپ والد کا قاتل سمجھتے تھے اس سے ملنا تو نہیں چاہتے ہوں گے؟ آپ دوبارہ پارٹی میں آئے اور ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا؟
احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں جانتا تھا مجھے مارک کیا گیا ہوا ہے، مجھ سے وہ بوتل لانے کا کہا جاتا جس میں والد کا خون محفوظ کیا تھا، میں ایک اچھا پبلک اسپیکر تھا اس لئے مجھے مہم میں شمولیت کا کہا گیا، میں جانتا تھا بھٹو مجھے قتل کروا دے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات میں ایک اور تضاد ہے، جب آپ کو پتہ تھا بھٹو اتنا طاقتور ہے تو پھر آپ ان کے خلاف کیسے بول سکتے تھے؟۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ایک انتہائی طاقتور شخص تھا، صرف 5 لوگوں کو نشان پیپلز پارٹی ملا میں ان میں ایک تھا، ذوالفقار علی بھٹو میرے علاوہ ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر یہ محبت نفرت میں کیسے بدل گئی؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ ایسا نہیں مجھے کچھ ملا نہیں تھا تو خلاف ہوگیا، ہمارے اختلاف ذوالفقار علی بھٹو کے چار بیانات پر شروع ہوئے، پہلا بیان 14 فروری 1971 کا تھا کہ ہم آنے والے اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، دوسرا بیان 28 فروری 1971 میں اقبال پارک لاہور کا بیان تھا، بھٹو نے کہا تھا جو ڈھاکہ گیا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، تیسرا بیان 14 مارچ 1971 میں نشتر پارک کراچی کا تھا،وہاں بھٹو نے کہا آپ مشرقی ، میں مغربی پاکستان کی اکثریت رکھتا ہوں، اس بیان پر سرخیاں لگی تھیں ادھر تم ادھر ہم۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ 1971 کی بات ہے اس وقت تو بھٹو وزیر اعظم نہیں تھے، قتل تو 1974 میں ہوا ہے، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ کوئی پندرہ سولہ کے قریب حملے ہوئے تھے مجھ پر پہلے دس سے زیادہ ایف آئی آرز تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان ایف آئی آرز میں تو آپ نے بھٹو کو نامزد نہیں کیا، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ پہلی ایف آئی آرز میں بھٹو کو میں نے نامزد نہیں کیا تھا، جب میرے والد کا قتل ہو گیا تو میں نے کہا بس بہت ہو گیا، بھٹو کا چوتھا بیان جو وجہ اختلاف بنا وہ ڈھاکہ ملٹری آپریشن شروع ہونے پر تھا، کراچی ائیرپورٹ پر بھٹو نے آپریشن پر کہا شکر ہے پاکستان محفوظ ہو گیا ہے، ایک لیڈر کو اسی وقت کہنا چاہیے تھا یہ پاکستان کی تباہی کا آغاز ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب آپ قتل کیس پر فوکس کریں، جو صدر پاکستان نے ریفرنس میں سوال پوچھا اس پر رہیں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ مغربی پاکستان سے ضمیر کی آواز پر ڈھاکا جانے والا میں واحد شخص تھا، وہ سیشن ہوجاتا آج ہنستا بستا پاکستان ہوتا۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ججوں کے تعصب پر جو باقی لوگوں نے بات کی اس پر آپ کیا کہیں گے؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ تعصب کا الزام صرف مولوی مشتاق پر تھا، مولوی مشتاق نے تو فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا، فیصلہ تو آفتاب حسین نے لکھا وہ متعصب نہیں تھے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے متعلق ایک جج کا انٹرویو موجود ہے، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا، فرض کریں وہ ضیاالحق کی ہدایات پر ایسا کر رہے تھے پھر تو وہ ضیا کو بہت عزیز ہوتے، تاریخ مگر یہ بتاتی ہے جب پی سی او آیا انوار الحق نے حلف لینے سے انکار کیا، جو شخص پی سی او کا حلف نہیں لے رہا وہ کسی معصوم کی جان لے گا؟
بعدازاں ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کرلی جبکہ عدالت عظمیٰ نے تمام فریقین کے دلاٸل مکمل ہونے پر رائے محفوظ کی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ جلد اپنی رائے سنائے گی، ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد عدالت رائے کو سنائے گی۔
سماعتیں کب ہوئیں
پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اورآخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی جو 9 رکنی لارجربینچ نے کی تھی تاہم اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل بابر اعوان کا وکالت لائسنس منسوخ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے وکیل کی تبدیلی کا حکم دیا تھا ۔ بعد ازاں اسی بنیاد پر یہ ریفرنس ملتوی کردیا گیا تھا۔
نومبر 2012 کے بعد سے اب تک پاکستان کے 8 چیف جسٹس صاحبان مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں تاہم تب سے اس ریفرنس کو سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیاتھا۔
موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اکتوبر 2023 میں صحافیوں سے ملاقات میں ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی جلد سماعت کا عندیہ دیا تھا۔
Comments are closed on this story.