گلگت بلتستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کا جو حصہ ہمارے پاس ہے وہاں ریفرنڈم کروا لیں، کیونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے گلگت بلتستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس حوالے سے گلگت بلتستان کے لوگوں کی کیا رائے ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دے کر آئینی دھارے میں لانا چاہتے ہیں لیکن عالمی کنونشنز رکاوٹ ہیں۔
دوران سماعت مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کا تذکرہ ہوا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ بھارت نے تو کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے، کشمیر اور جی بی کا جو حصہ ہمارے پاس ہے وہاں ریفرنڈم کروا لیں کیونکہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی آئینی حیثیت کیا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنڈم اقوام متحدہ ہی کروا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اقوام متحدہ کو بلا لیں استصواب رائے ہوجائے گا، مجھے معلوم نہیں ہے صرف آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت بن گئی ہے؟ وزیراعظم کون ہیں؟ جس پر وکیل گلگت بلتستان حکومت سعد ہاشمی نے جواب دیا کہ حکومت نہیں بنی، سنا ہے 29 فروری کو اسمبلی اجلاس ہوگا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مناسب ہوگا کہ نئی حکومت کی تشکیل کا انتظار کرلیا جائے، وزیراعظم جی بی کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں۔
وکیل محمد ابراہیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جی بی کے حوالے سے 2019 میں فیصلہ دیا تھا، 7 رکنی بینچ کا فیصلہ موجودہ کیس سے ہی منسلک ہے۔
سماعت مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجواتے ہوئے عدالتی معاونت کے لیے گلگت بلتستان بار کونسل اور سپریم ایپلٹ بار ایسوسی ایشن کو نوٹس جاری کردیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فریقین کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
گزشتہ سماعت کا احوال
اس سے قبل گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کے خلاف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی درخواست پر سماعت کی گئی، سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے معاملہ لاجر بینچ بنانے کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔
وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت ججز کی تعیناتی کا اختیار صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ کے پاس ہے، ججز کی سمری پر گورنر گلگت بلتستان نے وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کو بائی پاس کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ وزیر اعظم نے گورنر کی ایڈوائس پر ججز کی تعیناتی کی منظوری دی، ججز تعیناتی پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اور صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی گئی، گلگت بلتستان میں منتخب حکومت ہے جسے ججز تعیناتی میں بائی پاس کیا گیا۔
’سول ایوی ایشن کیس میں سپریم کورٹ نے 2019 میں ججز کی تعیناتی کے لیے کمیشن مقرر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ گلگت بلتستان می ججز کی تعیناتی کا معاملہ اہم ہے اس لیے ساتھی جج سے مشاورت کی، بینچ نے مشاورت سے معمالہ چیف جسٹس کو لاجر بنچ بنانے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے لاجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی تھی۔
اس سے پہلے ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے چیف کورٹ آف جسٹس گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی کے لیے وفاقی حکومت کو مہلت دی تھی، سپریم کورٹ میں چیف کورٹ آف جسٹس گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی کے خلاف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی درخواست پر سماعت کی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل انور منصور خود پیش ہوں گے، انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وفاقی حکومت کو جواب جمع کرانے کے لیے مناسب وقت دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جواب جمع کروانے کی استدعا منظور کرلی اور کیس کی سماعت 3 مئی تک ملتوی کر دی تھی۔
واضح رہے سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو گلگت بلتستان میں ججز کی تعیناتی سے روک دیا تھا، گزشتہ برس مارچ میں ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے جی بی سپریم ایپلٹ کورٹ میں تعینات ججزکو بذریعہ رجسٹرارنوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 15 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔
Comments are closed on this story.