Aaj News

جمعہ, ستمبر 20, 2024  
16 Rabi ul Awal 1446  

پولنگ کے اوقات میں کیا کچھ ہوتا رہا

دن کے شروع میں کم ٹرن آؤٹ کی اطلاعات اور پھر پولنگ اسٹیشنوں پر قطاریں
اپ ڈیٹ 09 فروری 2024 12:25am
تصویر: روئٹرز
تصویر: روئٹرز
پشاور، گلبہار کے میں پولنگ اسٹیشن کے باہر عملہ پولیس اہلکاروں کے پاس سے گزر رہا ہے۔ روئٹرز
پشاور، گلبہار کے میں پولنگ اسٹیشن کے باہر عملہ پولیس اہلکاروں کے پاس سے گزر رہا ہے۔ روئٹرز

طویل انتظار اور دن بھر کی ہنگامہ خیزیے کے بعد ملک میں بالآخر انتخابات ہوگئے ہیں، ملک بھر میں شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی ہوئی اور اب نتائج کا سلسلہ جاری ہے۔

پانچ بجتے ہی ملک بھر کے تمام پولنگ اسٹیشنز کے دروازے بند کردیے گئے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق وقت ختم ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشنز میں موجود افراد کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔

غیرحتمی و غیر سرکاری نتائج شام چھ بجے کے بعد نشر یا شائع کرنے کی اجازت دی گئی تھی، چھ بجتے ہی نتائج جاری ہونا شروع ہوگئے۔

پولنگ کا وقت صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک تھا، اس دوران مختلف مقامات پر پولنگ تاخیر سے شروع ہوئی، بعض پولنگ اسٹیشنز پر بدانتظامی نظر آئی، چند پولنگ اسٹیشنز پر جھگڑے بھی ہوئے تاہم مجموعی طور پر پولنگ پرامن رہی۔

الیکشن کے ابتدائی چار پانچ گھنٹے میں کچھ شہروں سے کم ٹرن آؤٹ کی اطلاعات آئیں۔ جب کہ کئی شہروں میں ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔

اس سے قبل پولنگ کے دوران پی ٹی آئی کے حلقوں کی جانب سے بھاری ٹرن آؤٹ کے دعوے کیے گئے۔ پی ٹی آئی جو تکنیکی طور پر انتخابات سے باہر ہو چکی ہے کی جانب سے ووٹرز کو گھروں سے باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کا پیغام دیا گیا۔

ملک کے مختلف علاقوں میں ٹرن آؤٹ کے اندازے مختلف رہے ۔ آج نیوزکے یاسر نذر کے مطابق راولپنڈی کے حلقے این اے 53 میں معمول سے زیادہ ٹرن اوٹ دیکھا گیا، حلقے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بڑی تعداد بھی ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلی۔

این اے 56 میں ووٹرز کو گاڑیوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچایا جاتا رہا۔

عمرانہ کومل کے مطابق اسلام اباد کے حلقہ این اے 47 جی سیون پولنگ اسٹیشن جہاں اقلیتی ووٹرز 60 ،سے 70 فیصد ہیں میں دوپہر کے بعد ووٹرز بڑی تعداد میں پہنچنا شروع ہوئے۔

آج نیوز کے احسان احمد کے مطابق لاہور کے حلقہ این اے 119 میں ووٹرز کی بڑی تعداد ووٹ کاسٹ کرنے پہنچی۔ پولنگ کے وقت رش کے باعث ووٹرز کی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئی۔

سعید بلوچ کے مطابق این اے 120 لاہور میں بھی بڑی تعداد میں ووٹرز دیکھے گئے جن کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔

دوسری جانب کراچی سے آج نیوز کے قیصر عباس کے مطابق کراچی کے حلقےاین اے235 میں ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ پولنگ اسٹیشن میں عملہ تو موجود تھا لیکن ووٹرزغائب رہے۔ عروج رضوی کے مطابق کراچی کے حلقےاین اے236 میں بھی ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار رہا۔

آج نیوز کے سامی میمن کے مطابق کراچی کے ضلع ملیرمیں کےحلقہ این اے 229 میں شہریوں کو مشکلات کا سامنا رہا۔ شہری پولنگ اسٹیشنز تو آئے لیکن مایوس ہوکر بغیر ووٹ کاسٹ کئے گھروں کو واپس گئے۔

محمد رضا کے مطابق کراچی کے ضلع وسطی کے حلقے این اے250 میں شہری ووٹ کاسٹ کرنے آئے۔ لیکن پولنگ عملے کی جانب سے شہریوں کے ساتھ تعاون نہیں کیا گیا۔

شمیل احمد کے مطابق کراچی میں اورنگی ٹاؤن،این اے 246 اور 242 میں پولنگ دوپر تک شروع نہ ہوسکی تھی۔ جب کہ این اے 236،راشد منہاس سوسائٹی میں انتخابی عملہ غائب رہا۔

گجرات کے حلقہ این اے 62 کے بیس سے پچیس پولنگ اسٹیشنز پر سات گھنٹے گزرنے کے باوجود پولنگ کا عمل شروع نہ ہو سکا تھا۔

رائے ونڈ میں نیٹ اور موبائل سروس بند ہونے سے پولنگ کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ ووٹرز اپنا پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے میں مصروف دکھائی دیے۔

حویلی لکھا حلقہ این اے 138 میں پولنگ اسٹیشنز پر عوام کا جم غفیر رہا۔ آج نیوز کے عثمان علی کے مطابق پولنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے 50 سے 60 فیصد مرد و خواتین ووٹ کاسٹ کر چکے تھے۔

طارق قریشی کے مطابق علی پور کے حلقہ این اے 178 کے پولنگ اسٹیشن نمبر 23 اور 24 میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ دوپہر تک انتہائی کم تھا۔

آغا یاور کے مطابق سکھر میں نواں گوٹھ کے حساس پولنگ اسٹیشنز پر خواتین کا رش اورٹرن آؤٹ تیز رہا، جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے مابین میں سخت مقابلہ تھا۔

محمد صدیق کے مطابق نصف سے زائد وقت گزرجانے کے باوجود میرپورخاص کے بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار تھا۔

آج نیوز کوئٹہ بیورو چیف مجیب احمد کے مطابق کوئٹہ کے علاقے پوسٹل کالونی میں این اے 263 اور پی بی 42 کے پولنگ اسٹیشنوں میں گہماگہمی دیکھی گئی۔ مرد ووٹرز کی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے پہنچی۔

دن کے پہلے نصف حصے میں کم ٹرن آؤٹ

پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی اور پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کی موجودگی کے باوجود کم ٹرن آؤٹ کی اطلاعات آئیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کم ٹرن آؤٹ کیلئے موبائل سروس کی بندش کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

روزنامہ ڈان پشاور کے ایڈیٹر اسماعیل خان کے مطابق صبح ساڑھے گیارہ بجے تک صوبے بھر میں رائے دہندگان کا ٹرن آؤٹ اوسطا 9 فیصد تھا۔

تاہم اُن کا کہنا تھا کہ دوپہر کے کھانے کے بعد رائے دہندگان کی تعداد میں تیزی آ سکتی ہے۔

سینیئر صحافی حامد میر نے ایکس پوسٹ میں کہا کہ، ’ملک کے مختلف حصوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹر بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن پولنگ کا عمل جان بوجھ کر سست رکھا گیا ہے۔‘

حامد میر نے دعویٰ کیا کہ جہاں صبح سے سیکڑوں ووٹر موجود ہیں وہاں پولنگ اتنی سست ہے کہ پہلے 4 گھنٹے میں100 سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے، اس سستی کا انٹرنیٹ کی معطلی سے کوئی تعلق نہیں۔

سینیئر صحافی طلعت حسین نے بھی اپنی پوسٹ میں کہا کہ اب تک ملک بھر میں ٹرن آؤٹ پہلے 4 گھنٹوں کے رجحان سے کم ہے۔ شہری مراکز عام اوسط سے 10 فیصد کم رپورٹ کر رہے ہیں۔

طلعت حسین کے مطابق ٹرن آؤٹ پولنگ ٹائم کے دوسرے حصے میں بڑھ سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ 1997 کی عکاسی کر سکتا ہے۔

آج نیوز کو مختلف علاقوں سے کم ٹرن آؤٹ کی شکایات ملی ہیں۔

جیکب آباد میں انٹرنیٹ سروس معطل رہنے کے باعث ووٹرز کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم نظرآرہا ہے۔صوبائی حلقہ پی ایس 1 میں خواتین کے ہولنگ اسٹیشن پر دوپہر 12 بجے تک صرف 16ووٹ کاسٹ ہوسکے۔

حیدرآباد میں بھی ووٹنگ کا عمل جاری ہے تاہم اب تک ووٹنگ ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹرن آؤٹ میں بھی اضافہ ہو جائے گا ۔

سکھر میں بھی صبح کے اوقات میں ٹرن آؤٹ سست روی کا شکاررہا۔ ووٹرز کا ماننا ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کے باعث رابطوں کا فقدان بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔

خیبر میں پولنگ کا عمل بلا تعطل جاری ہے تاہم باڑہ میں ٹرن آؤٹ بہت کم ہے۔

ادھر ہری پورمیں حلقہ پی کے48 میں ابتدائی گھنٹوں کے دوران خواتین ووٹرکاووٹ پول نہیں ہوسکا حالانکہ خواتین پولنگ اسٹیشن پرعملہ موجود تھا۔ اس سے قبل کے عام انتخابات میں بھی کسی خاتون ووٹرنے ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا۔

ٹرن آؤٹ کی تاریخ

پاکستان کے گذشتہ دو انتخابات میں ٹرن آؤت 50 فیصد سے زائد رہا ہے جب کہ کئی انتخابات میں یہ 40 فیصد کے لگ بھگ رہا۔ البتہ ملکی تاریخ کے دو اہم ترین انتخابات 1970 اور 1975 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 61 فیصد رہا۔ 1970 کے انتخابات کے بعد ملک تقسیم ہوگیا تھا جب کہ 1975 کے انتخابات ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا اہم موڑ تھے۔

1988 میں جب بینظیر بھٹو کی واپسی کے ساتھ انتخابات ہوئے اور جمہوریت بحال ہوئی تو ٹرن آؤٹ 44 فیصد تھا۔

بینظیر کی رخصتی کے بعد 1990 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 46 فیصد رہا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے۔

1993 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 39 فیصد تھا، بینظیر بھٹو ایک بار پھر وزیراعظم بنیں۔

1997 میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلانے والے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 35 فیصد تھا۔

2002 میں پرویز مشرف کے نیچے جب جمہوریت کی بحالی ہوئی تو ٹرن آؤٹ 40 فیصد رہا۔

یہ شرح 2008 کے الیکشن میں بہتر ہو کر 44 فیصد ہوگئی۔

2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ٹرن آؤٹ 53 فیصد تھا جو 1990 کے بعد سب سے بڑا ٹرن آؤٹ ہے۔

عمران خان کے وزیراعظم بنتے وقت 2018 کے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 51 فیصد تھا۔

واضح رہے کہ ملک بھ میں عام انتخابات کے موقع پر موبائل فون سروس عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے موبائل انٹرنیٹ بھی بند کردیا گیا ہے۔ یہ عدم دستیابی ووٹرز کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

دوسری جانب ترجمان وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے، امن و امان قائم رکھنے اور ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات ضروری ہیں، اس لیے ملک بھر میں موبائل سروس کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Election 2024

GENERAL ELECTION 2024

Internet Ban

mobile phone service ban