Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا حکم، جنگ بندی کرانے میں عالمی عدالت انصاف ناکام

اسرائیل کیخلاف مقدمہ جاری رہے گا، اسرائیلی یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ
اپ ڈیٹ 26 جنوری 2024 08:33pm
عالمی عدالت انصاف کا اندرونی منظر۔ اسکرین گریب
عالمی عدالت انصاف کا اندرونی منظر۔ اسکرین گریب
عدالت کے باہر فلسطینی جمع ہوگئے
عدالت کے باہر فلسطینی جمع ہوگئے

عالمی عدالتِ انصاف نے غزہ میں نسل کشی سے متعلق اسرائیل کے خلاف دائر مقدمے کا عبوری فیصلہ سنا دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دینے میں ناکام ہوگئی ہے تاہم عدالت نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ خارج کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کے نسل کشی کے اقدامات سے گریز کریں۔

عدالت کے 17 میں سے 15 ججوں نے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا حکم دیا جب کہ دو ججوں نے اس فیسلے کی مخالفت کی۔

فیصلہ پاکستانی وقت کے مطابق شام پانچ بجے آنا شروع ہوا اور فیصلے سے قبل فلسطین کے حامیوں کی بڑی تعداد دی ہیگ میں عدالت کے باہر جمع ہو گئی۔عدالت کے باہر رکاوٹیں بھی موجود ہیں۔

عدالت میں دی ہیگ کے 17 میں سے 16 ججز موجود تھے۔

اسرائیل کے خلاف درخواست دینے والے جنوبی افریقہ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو اس مطالبے پر عمل درآمد کا پابند نہیں کیا۔ البتہ اسرائیل کو اپنے اقدامات پر ایک ماہ میں رپورٹ جمع کرانے کا پابند کیا گیا ہے۔

دی ہیگ میں امریکہ سے تعلق رکھنے والی جج جوآن ڈاناہیو نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ وہ پیراگراف 13 سے فیصلہ سنا رہی ہیں۔

جج نے کہاکہ عدالت اس معاملے کے تناظر کو سامنے رکھ رہی ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل میں حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں آپریشن شروع کیا جس میں بڑے پیمانے پر شہریوں کا جانی نقصان ہوا، عدالت کو خطے میں رونما ہونے والے انسانی المیہ کا بخوبی اندازہ ہے۔

  جج ڈاناہیو فیصلہ سنا رہی ہی
جج ڈاناہیو فیصلہ سنا رہی ہی

جج نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا بھی ذکر کیا۔

جج نے کہاکہ جنوبی افریقہ نے مقدمہ نسل کشی کے خلاف کنونشن کے تحت دائر کیا ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نسل کشی کی صورت حال پائی جاتی ہے۔

جج نے کہاکہ نسل کشی سے متعلق کنونش پر جنوبی افریقہ اور افریقہ دونوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔

جج نے مقدمے کے قابل سماعت ہونے کے کئی تکنیکی نکات کا ذکر کیا اور کہا کہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر جج الزامات کا ذکر کیا ہے ان میں کم ازکم کچھ عدالت کے دائرہ سماعت میں آتے ہیں۔

مقدمہ نہ سننے کے لیے اسرائیل کی درخواست مسترد کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ عالمی عدالت انصاف کو کیس سننے کا اختیار ہے۔

عدالت نے کہاکہ نسل کشی کا الزام ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی گروپ کے بڑے حصے کو تباہ کیا گیا ہو، غزہ میں آبادی فسلطینیوں کا ایک خاصا بڑا حصہ ہے اور اس کی بڑی تعداد کی اموات اور زخمی ہوئی ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ فسلطینیوں کی اموات کی حتمی تصدیق ممکن نہیں تاہم اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 25،700 فلسطینی قتل ہوچکے ہیں۔

عدالت نے فلسطینیوں کی حالت زار پر مختلف اداروں اور عہدے داروں کے بیانات بھی پڑھ کر سنائے۔

جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کی منصوبہ بندی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ اس حوالے سے عدالت نے اسرائیلی عہدیداروں کے بیانات پڑھ کر سنائے جن میں فلسطینیوں اور حماس کے خاتمے اور فلسطینیوں کی خوراک و پانی بند کرنے کا ذکر ہے۔ عدالت نے کہاکہ غزہ کی 20 لاکھ کی آبادی نفستیاتی اور جسمانی تکلیف میں مبتلا ہے۔

عدالت نے سینئر اقوام متحدہ عہددیدار مارٹن گرفٹز کے بیان کا ذکر کیا جنہوں نے کہاکہ ’غزہ موت اور تباہی کی جگہ بن چکا ہے۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ نسل کشی سے متعلق کنونشن کے تحت فلسطینی ایک خطرے سے دوچارگروپ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ عدالت انہیں نسل کشی کی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کا حق تسلیم کرتی ہے

عدالت نے کہا کہ وہ عبوری حکم نامہ جاری کرنے کا حق رکھتی ہے۔

غزہ کی صورت حال کا مزید ذکر کرتے ہوئے جج نے کہاکہ حتمی فیصلہ آنے سے پہلے صورت حال سنگین ہونے کے خدشات ہیں۔

ان تمام باتوں کا ذکر کرتے ہوئے جج نے کہاکہ عبوری فیصلے کے لیے تمام تر حالات موجود ہیں۔

عدالت نے کہاکہ اسرائیل انسانی حقوق کنونشن کے آرٹیکل 2 میں آنے والے تمام افعال سے گریز کرے، اسرائیلی افواج ان میں سے کوئی بھی اقدام نہ کریں، فلسطینیوں کی نسل کشی پر اکسانے والے اقدامات نہ کیے جائیں، نسل کشی کے الزامات کے ثبوت مٹانے کی کوشش نہ کی جائے، اسرائیل اس حکم نامے پر عملدرآمد کی رپورٹ ایک ماہ کے اندر عدالت میں جمع کرائے۔

عالمی عدالت انصاف نے اپنے حکم نامے میں اسرائیلی یرغمالیوں کا بھی ذکر کیا اور ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا۔

عدالت نے 2 کے مقابلے میں 15 ووٹ سے فیصلہ دیا کہ اسرائیل ”جس حد تک اس کے اختیار میں ہو“ نسل کشی کے اقدامات وہ اقدامات نہ کرے جن کا ذکرنسل کشی کیخلاف کنونشن کے آرٹیکل 2 میں ہے اور اس کی فوج ایسے اقدامات سے گریز کرے۔

عدالت نے 1 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے فیصلہ دیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے اقدامات نہ کرے اور غزہ میں ضروریات زندگی کی فراہمی میں رکاوٹ نہ بنے۔

عدالت نے 2 کے مقابلے میں 15 ووٹوں سے فیصلہ دیا کہ اسرائیل نسل کشی کے ثبوت مٹانے سے گریز کرے۔

عدالت نے 2 کے مقابلے میں 15 ووٹوں سے فیصلہ دیا کہ اسرائیل ان اقدامات کی رپورٹ عالمی عدالت انصاف کو جمع کرائے گا۔

فیصلے سے قبل جرمنی نے کہاکہ جو بھی فیصلہ آیا اس کا احترام کیا جائے گا۔

عرب ٹی وی الجزیرہ کے مطابق فلسطین میں لوگ بے چینی سے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔

فیصلہ سنتے ہیں الجزیرہ نے نتیجہ نکالا کہ اہم بات یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے جنگ بندی کا حکم نہیں دیا۔

جنوبی افریقا کی طرف سے دائر مقدمے کے نتیجے میں اسرائیل کو عبوری مدت ہی کے لیے سہی، بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی چھتری تلے کام کرنے والی عالمی عدالتِ انصاف نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اسرائیل پر دائر کیے جانے والے مقدمے کے حوالے سے جمعہ کو کلیدی نوعیت کی رولنگ دے گی۔ ہیگ (ہالینڈ) میں قائم عدالت اسرائیل کو غزہ میں فوجی کارروائیاں روکنے کا حکم دے سکتی ہے۔

دسمبر میں دائر کیے جانے والے مقدمے میں جنوبی افریقا کا موقف ہے کہ غزہ میں بہت کم مدت میں عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں 25 ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

جنوبی افریقا کے وکلا کا موقف ہے کہ اسرائیلی کارروائیوں سے غزہ میں محض ہلاکتیں واقع نہیں ہوئیں بلکہ خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ہسپتال تباہ کردیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں علاج کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ حماس کے مکمل خاتمے تک غزہ میں اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں۔ شام، لبنان، عراق، یمن کوئی ہمیں نہیں روک سکتا، ہیگ (کی عالمی عدالتِ انصاف) بھی نہیں۔

Israel

Gaza

international court of justice

CASE BY SOUTH AFRICA