Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پی ٹی آئی الیکشن کہاں ہوئے تھے، ہوٹل میں کسی گھر یا پھر دفترمیں؟ چیف جسٹس

بلے کے نشان پر سماعت ہفتہ کی صبح 10 بجے تک ملتوی
اپ ڈیٹ 13 جنوری 2024 10:30am

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کیلئے بلے کے انتخابی نشان کی بحالی فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی دائر کردہ درخواست کی جمعہ کے روز سماعت کی جو کئی گھنٹے جاری رہی۔ شام کو چار بجے کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت ہفتہ کی صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ انٹرا پارٹی الیکشن درست قرار پائے تو بلے کے نشان سمیت سب کچھ مل جائے گا، سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر رہے ہیں، ہمارا ویک اینڈ برباد کرنے کا شکریہ۔

الیکشن کمیشن کی اپیل پشاور ہائیکورٹ کے چند روز ابل کے اس فیصلے کے خلاف ہے جس کے تحت پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر اس کے انٹراپارٹی انتخابات درست قرار دے کر انتخابی نشان بحال کردیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جمعہ کو سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججزمیں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

موجودہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر،شعیب شاہین،نیازاللہ نیازی اوردیگر کے علاوہ الیکشن کمیشن کاعملہ بھی سپریم کورٹ میں موجود رہا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے متعلق استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مختصر حکمنامہ ہے، کیا تفصلی فیصلہ آگیا ہے؟ اس پر پی ٹی آئی وکیل حامد علی خان نے نے جواب دیا کہ امید ہے ایک ہفتے تک آجاٸے گا۔

چیف جسٹس کی جانب سے پی ٹی آئی کیلئے دلائل دینے سے متعلق پوچھنے پر حامد خان نے کہا کہ ، ’جی میں دلائل دوں گا‘۔

پی ٹی آئی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں ابھی تک کوٸی نوٹس نہیں ملا،تفصیلی فیصلہ ایک ہفتے تک آنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ، ’ہمیں تیاری کیلٸے وقت چاہیے،عدالت اس معاملے کو پیر 15 جنوری کو روز کو سماعت کیلٸے رکھے۔

اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 13 جنوری کو انتخابی نشانات جاری کرنے ہیں، جس کےبعد پولنگ کیلٸے بیلٹ پیپرز کی چھپاٸی کا کام شروع ہونا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ، ’ہمیں دونوں اطراف کیلٸے فیئر ہوناچاہیئے، تین دن کے لیے کیس ملتوی کرنا ہے تو پشاورہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم توکل اورپرسوں کام کرنے کے لیے تیار ہیں،ہفتےاوراتوارکی چھٹی قربان کرکےانتخابات کے کیسزسن سکتے ہیں صرف یہ چاہتےہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کےمطابق ہوں۔

الیکشن کمیشن کے الزام سے متعلق چیف جسٹس کے استفسارپر وکیل نے کہا کہ پی ٹی آٸی مقررہ وقت میں انٹراپارٹی الیکشن کروانےمیں ناکام رہی۔

پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر اعتراض اٹھا دیا

پی ٹی آٸی وکیل حامد خان نے کہا کہ چند گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتاہوں، جس پر چیف جسٹس بولے کہ آپ خود تو کہہ رہے ہیں کہ کیس کی تیاری کے لیے وقت چاہیے۔ حامد خان نے جواب میں کہا کہ اس معاملے پر دلاٸل دینے کو تیار ہوں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کےگزشتہ پارٹی انتخابات2017میں ہوئےتھے، پارٹی آئین کےمطابق تحریک انصاف2022میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کےآئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنرکےعلاوہ کوئی اورممبرتعینات نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے اس بات کی تصدیق پی ٹی آئی وکیل حامد خان سے کی جنہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟ جواب میں پی ٹی آئی وکیل بولے کہ کیس کی تیاری کیلئے وقت اسی لئے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابل سماعت اورحق دعویٰ نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا۔مناسب ہوگا پہلےحق دعویٰ اورقابل سماعت ہونےکانکتہ سن لیں۔

’الیکشن کمیشن کےکام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو ریگولیٹ اورشفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

پی ٹی آئی وکیل نے نکتہ اٹھایا کہ سپریم کورٹ قراردے چکی کوئی ادارہ فیصلےکےدفاع میں اپیل نہیں کرسکتا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسٹم کلیکٹربھی اپنے فیصلے کیخلاف ہائی کورٹ میں اپیلیں کرتےہیں۔ قابل سماعت ہونے کا سوال تو پھر پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ اپیل پر بھی آئے گا۔ الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بےمعنی ہوجائیں گے۔

پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے یہ کہنے پر کہ ، ’ متاثرہ فریق اپیل کرسکتا ہےالیکشن کمیشن نہیں،کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونےکےخلاف اپیل کرسکتا ہے’ ، چیف جٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتاہےالیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیاالیکشن کمیشن اپنےخلاف فیصلہ آنے پرسرینڈرکردے؟۔

چیف جستس نے مزید کہا کہ ’ الیکشن کمیشن کےکام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی، ایک بارسابق چیف جسٹس جوادخواجہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے کرنے لگے تو میں نے جسٹس جواد خواجہ سے کہا اختلافی نوٹ لکھوں گا۔ میں نے واضح کہا تھا کہ انتخابات کرواناالیکشن کمیشن کاکام ہے اور سابق چیف جسٹس جوادخواجہ نےمیری بات سےاتفاق کیا تھا۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہےاس کےکام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کرسکتا،اگرالیکشن کمیشن کوئی غیر آئینی کام کرےتوپھرمعاملہ دیکھا جاسکتا ہے۔’

’اکبرایس بابر پارٹی کے رُکن کیوں نہیں ہیں‘

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آٸی کےپارٹی الیکشن کیخلاف چودہ شکایات ملی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نے بتایا کہ درخواستیں دینےوالےتحریک انصاف کے لوگ تھے۔

اس دوران پی ٹی آئی کے منحرف بانی رکن اکبر ایس بابر کے وکیل نے روسٹرم پر آکرکہا کہ ہماری درخواست کا کوٸی جواب نہیں دیا گیا، اکبرایس بابر بانی رکن ہیں اور پارٹی میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے، پھروہ پی ٹی آٸی کے ممبرکیوں نہیں؟

اس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ نے اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فاؤنڈرممبرتو میرے حساب سے کبھی ختم نہیں ہوتا۔

چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کیا انہوں نے کسی اورجماعت میں شمولیت اختیار کی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ یہ ایک اور بحث ہےکہ کون فاونڈنگ ممبر ہے کون نہیں۔ اکبرایس بابر اب پی ٹی آئی کےرکن نہیں ہیں، پارٹی کابیان کسی انفرادی شخص کے بیان پرفوقیت رکھتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ، ’جذباتی نہ ہوں،اکبرایس بابر کےرکن نہ ہونے کی دستاویز دکھا دیں‘ ، اس پرحامد خان نے اعتراف کیا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن تھے۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی آئینی ادارے کاکام خود نہیں کرینگے ، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں۔ یہ بتائیں کہ پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟ ، اس پرپی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی توآج دستاویزات بھی لے آتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائیکورٹ گئی تھی تواپیل دائرہونے پرحیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں، کیاپی ٹی آئی کے انتخابات بلامقابلہ ہوئے تھے؟ ، اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پہلےتین پینل تھے پھراعلان ہوا کہ سب لوگ دستبردارہوگئے۔

بلا مقابلہ منتخب ہونا باعث تعجب

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں تومقابلے ہوتے ہیں لوگ ٹکٹ کیلئےلڑائیاں کرتے ہیں۔ وکیل الیکشن کمیشن بولے کہ کسی عہدے پر کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ جواب میں چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیاز اللہ نیازی کون ہیں کیا وہ عدالت آئے ہیں؟ ان کے پیش ہونے پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ وکیل ہیں؟ سب کا بلامقابلہ متفق ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟ ، جواب میں نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ تمام عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی میں سب کا بلامقابلہ ہوناتعجب کی بات ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سیاسی جماعت کےآئین کےمطابق انتخابات نےہوناہوتاہے، پی ٹی آئی نےسابقہ الیکشن کمیشن کوہٹانےکابھی کوئی نوٹیفیکیشن نہیں دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دو صوبوں کےچیف جسٹس جوڈیشل کونسل اجلاس کیلٸےانتظار کررہے ہیں ، ہم ڈیڑھ بجے تک وقفہ کرلیتے ہیں اور تب تک سپریم جوڈیشل کونسل کااجلاس کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم جمہوریت پر چلتے ہیں، یہ جمہوریت تو نہیں ہے۔ پی ٹی آئی آئین میں فیڈرل الیکشن کمشنرکا ذکر ہے،نتائج کا اعلان چیف الیکشن کمشنر نیازاللہ نیازی نے کیا، جن پر صرف انہی کے دستخط ہیں، کسی صوبائی الیکشن کمشنر کے نہیں۔

جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صوبوں کے انتخابات بھی پشاور میں ہی ہوئے ہیں حامد خان سے ان سوالات کے جواب لیں گے۔

انٹراپارٹی انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ ہوٹل میں ، دفتر یا پھرگھرمیں

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکلاء سے استفسار کیا کہ انٹراپارٹی انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ کیا کسی ہوٹل میں منعقد کیے گئے تھے یا گھر میں یا کسی دفترمیں۔ کیا پی ٹی آئی کے پاس کوئی ایسا نوٹیفیکیشن موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ پارٹی الیکشن کس جگہ ہوں گے؟۔

اس پر وکیل نے بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات چمکنی گاؤں کے ایک گراؤنڈ میں ہوئے تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پارٹی انتخابات کیلئے خیبرپختونخوا کے ایک چھوٹے سے گمنام گاؤں کا انتخاب کیوں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ پرکچھ نہیں ہے کہ پشاور میں کس جگہ پارٹی الیکشن ہوئے، انہوں نے استفسار کیا کہ پارٹی ارکان کو کیسے علم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کہاں جانا ہے؟۔ اس پر نیاز اللہ نیازی نے جواب دیا کہ اراکین کو بذریع واٹس ایپ مقام کے بارے میں بتایا تھا اور لوگ پہنچے بھی، اس کی ایک ویڈیو بھی موجود ہے اگر عدالت اجازت دے تو اسے کمرہ عدالت میں دکھایا جا سکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ، ’ویڈیوز باہر جا کرچلا لیں، ہم دستاویزات پر کیس چلاتے ہیں‘۔ عدالت نے نیاز اللہ نیازی کو دلائل سے روکتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس میں وکیل نہیں فریق ہیں،مزید بات کرنا چاہتے ہیں تو پی ٹی آئی کے سینیئر وکیل حامد خان سے اجازت لیں۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکلاء سے استفسار کیا کہ گذشتہ ماہ 2 دسمبر سے قبل پی ٹی آئیانٹراپارٹی انتخابات کب ہوئے تھے؟جس پر بتایا گیا کہ گذشتہ انتخابات 8 جون 2022 کو ہوئے تھے جنھیں الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دیا تھا۔

لاہور ہائیکورٹ سے پشاور کیوں گئے

عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا انتخابات کالعدم قرار دینے کاحکم چیلنج کیا گیا تھا، اس پر وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ فیصلہ پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیاتھا جو لارجربینچ کو ریفرکیا گیا لیکن فیصلہ نہیں ہوسکا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب ایک فیصلہ لاہورہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو پشاور ہائیکورٹ نے کیسے کیس کو سُنا؟ اس پر موجودہ پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پارٹی انتخابات کی حد تک لاہور ہائیکورٹ والا کیس غیرموثرہو چکا ہے، نئے پارٹی انتخابات پشاور میں ہوئے تھے اس لیے پٹیشن بھی وہیں دائر کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ انٹراپارٹی انتخابات کاایک کیس لاہور،دوسراپشاورمیں کیسےچل سکتا ہے، کیاپشاورہائیکورٹ میں دائرہ اختیارکانکتہ اٹھایا تھا؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ میں دائرہ اختیار سمیت دو ہائیکورٹس والا نکتہ بھی اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ لگتاہےپی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن سےپراناجھگڑاہے۔

چیف جسٹس کے اس استفسار پر کہ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کے دوران الیکشن کیوں نہیں کرائے، وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 10اپریل 2022 تک پی ٹی آئی حکومت میں رہی، اس وقت کرونا کیوجہ سےپی ٹی آئی نے پارٹی انتحابات نہ کرانے کا بتایا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ مطلب جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی الیکشن کمیشن ریلیف دے رہا تھا۔

وکیل نے کہاکہ نہیں الیکشن کمیشن نے اس وقت بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی نےاپنےورکرزکوپارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا، ہرسیاسی جماعت کےووٹرکاآئینی حق ہےکہ وہ اپناووٹ دے، اگرووٹ دینےکاحق چھین لیاجائےتوقومی سطح پربھی آمریت تصور ہوگی، اگرانٹراپارٹی انتخابات میں ممبرزکوووٹ نہ دینےدیاجائےتویہ حق تلفی ہوگی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ الیکشن کمیشن جس طرح پی ٹی آئی کی چھان بین کررہا سب جماعتوں کی ایسے ہوتی ہے۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے انٹرا پارٹی انتخابات کا پوچھا گیا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت جانےکےبعدکاروائی نہیں ہوئی پہلےسےمسئلہ چل رہا، نگران حکومت کےدباومیں کام نہیں کررہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھاہےکہ پارٹی انتخابات میں اصلی ووٹ کاسٹ ہو، اگرانتخابات بلامقابلہ ہوئےتوپی ٹی آئی کے ووٹ کیسے کاسٹ ہوئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ بیرسٹرگوہرکوبلامقابلہ چیئرمین پی ٹی آئی بنایا گیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کا کوئی پبلک نوٹس جاری کیا۔

الیکن کمیشن نے وکیل نے کہاکہ پی ٹی آئی نے پارٹی انتخابات کا کوئی پبلک نوٹس نہیں کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا دیگرجماعتوں کے آئین کوبھی اتنی باریکی سےدیکھا جاتا ہے؟ کیاباقی جماعتوں میں بھی بلامقابلہ انتخاب ہوتا ہے۔

پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں سقم

چیف جسٹس نے کہا کہ کیاہائیکورٹ نےکہاکہ پی ٹی آئی کےانٹراپارٹی انتخابات درست ہوئے ہیں، بلےکےانتخابی نشان کامعاملہ توبعدکاہےپہلےانٹراپارٹی انتخابات کو دیکھنا ہوگا، پشاورہائیکورٹ نےایسی ڈکلیریشن ہی نہیں دی کہ انٹراپارٹی الیکشن درست تھے،، پشاورہائیکورٹ نےاتناکہاکہ بلےکاانتخابی نشان پی ٹی آئی کو دیا جائے، پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں سقم ہیں۔

الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی درخواست میں پارٹی انتخابات درست قراردینےکی استدعا نہیں تھی، استدعاانتخابات سرٹیفکیٹ اورانتخابی نشان کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اگرپارٹی انتخابات درست قرارپاتےتوباقی کسی استدعا کی ضرورت نہیں تھی، کیا پی ٹی آئی کی ہائیکورٹ میں استدعائیں آئین کیخلاف نہیں تھیں؟

چیف جسٹس نے کہاکہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا کیا بنا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس کیا تھاابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ 9سال گزرگئے،پی ٹی آئی فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگرکےپی میں کسی کومسئلہ ہوتاتوپشاورہائیکورٹ کیس سنتی، ہائیکورٹ میں معاملہ زیرالتواہوتودوسری کیسے سن سکتی ہے، پشاورہائیکورٹ پورےملک سے متعلق حکم نہیں دےسکتی، انٹراپارٹی انتخابات درست نہ ہوئےتوپی ٹی آئی کونتائج کاسامناکرنا ہوگا۔

سماعت ہفتہ تک ملتوی

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلاٸل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس نے کہاکہ حامد خان صاحب آپ آج دلاٸل دینا چاہیے گے یا کل ؟ کیس جب تک ختم نہیں ہوگا تب تک سماعت چلے گی، ہم ملک میں عام انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں ۔

حامد خان نے کہاکہ کل ساڑھے 9 بجے دلاٸل شروع کروں گا۔

چیف جستس نے کہا کہ چلیں ہم سماعت کل 10 بجے شروع کر لیں گے۔

سپریم کورٹ نے سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کردی اور جمعہ کی کارروائی کا حکم لکھوا دیا۔

الیکشن کمیشن کا موؑقف

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ پی ٹی آٸی نے انٹر پارٹی انتخابات الیکشن ایکٹ کے تحت نہیں کروائے۔پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے، ہاٸیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ بدھ 10 جنوری کو پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس دینے کا فیصلہ دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا فیصلہ ویب سائٹ پر بھی جاری کیا جائے۔

پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کی جس پر ایک مرتبہ اس کے حق میں ایک مرتبہ خلاف فیصلہ آیا جس کے بعد پشاور ہائیکورٹ نے تیسرے فیصلے میں انٹرا پارٹی الیکشن بحال کردیئے۔

مذکورہ فیصلے کیخلاف اپیل اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جمعہ کو سماعت سپریم کورٹ سے براہ راست نشر کی گئی۔

Supreme Court

Election commission of Pakistan

PTI bat symbol

GENERAL ELECTION 2024