Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفیٰ

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنا تحریری استعفی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو ارسال کردیا
اپ ڈیٹ 11 جنوری 2024 10:09pm

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئرجج جسٹس اعجاز الاحسن بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو کو بھجوادیا۔

جسٹس اعجازالاحسن سپریم کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تیسرے سینئر ترین جج تھے جبکہ سنیارٹی لسٹ میں دوسرا نمبر جسٹس سردار طارق مسعود کا ہے۔

سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس کے لیے جسٹس اعجازالاحسن کا نام سب سے اوپر تھا، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد رواں سال اکتوبر 2024 میں انہیں ملک کا آئندہ چیف جسٹس بننا تھا اور اگست 2025 میں ان کی ریٹائرمنٹ ہونا تھی۔

جسٹس منصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے

دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں بڑی تبدیلیاں ہوگئیں، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ آئندہ چیف جسٹس ہوں گے۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان میں 17 ججوں میں سے دو آسامیاں خالی ہوگئیں، سپریم کورٹ میں ججز کی 17 آسامیوں میں سے تین خالی ہوگئیں، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور دو مستعفی ججز مظاہرعلی اکبر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی آسامیاں خالی ہوئی ہیں۔

جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی اہم تبدیلیاں ہوگئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے استعفے سے جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بن گئے اور جسٹس یحیحی آفریدی جوڈیشل کمیشن کے ممبر بن گئے ہیں۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، جسے صدر مملکت نے منظور کرلیا ہے۔

جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت ہے جس میں ان پر اثاثوں سے متعلق الزامات ہیں جبکہ ان کی ایک مبینہ آڈیو بھی سامنے آئی تھی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے 2 روز قبل سابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے اختلاف کیا تھا۔

واضح رہے کہ آج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف ہونے والی سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی کارروائی میں جسٹس اعجاز الاحسن نے بظور ممبر شرکت سے انکار کردیا تھا۔

چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا تو جسٹس سردار طارق مسعود، چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بطور رکن اجلاس میں شریک ہوئے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے آج سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی اور وہ سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوگئے جس کے بعد جسٹس منصور کو کونسل میں شامل کرلیا گیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے آج مستعفی جج مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر نقوی کو آگاہی کا نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک اور موقع دیا ہے، کونسل کا کہنا ہےکہ مظاہر نقوی چاہیں تو کل پیش ہوکر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اپنی خدمت کے لیے نہیں بیٹھے، ہم یہاں اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنےکے لیے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ سمیت سب ادارے عوام کو جوابدہ ہیں، اگر یہ چیز سب سیکھ لیں تو سارے مسئلے حل ہو جائیں گے، سوشل میڈیا اور میڈیا پر شور تھا کہ کیا ہم اتنے برے ہیں؟ سپریم کورٹ کی ساکھ بھی تو خطرے میں پڑی۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج نے استعفے میں لکھا کہ پبلک میں معاملات کی بنا پرکام جاری نہیں رکھ سکتے، استعفےسے تاثر ملتا ہے جیسے جج کو انصاف کی توقع نہیں تھی یا یہاں کوئی ڈریکونین سسٹم چل رہا ہے، اس معاملے کو دیکھنا ہوگا، معاملہ ہوا میں نہیں چھوڑ سکتےکہ جج نے استعفیٰ دے دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں مانٹرینگ جج رہے ہیں اور وہ جون 2016 میں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے تھے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے جاری مختلف کیسز لسٹ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن سپریم کورٹ کے بینچ تھری کی سربراہی میں مختلف کیسز کی سماعت کررہے ہیں، 3 رکنی اس بینچ میں جسٹس عائشہ اے ملک اورجسٹس شاہد وحید شامل ہیں، یہ بینچ 8جنوری سے 11 جنوری تک مختلف کیسز کی سماعت کرے گا۔

خیال رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کے نگران جج بنائے گئے تھے- جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ڈی آئی جی غلام محمود ڈوگر کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو پنجاب میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لئے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی تھی۔

جسٹس مظاہرکو دوسرے شوکاز پر جسٹس اعجاز الاحسن کا اختلافی نوٹ

سپریم جوڈیشل کونسل کے جسٹس مظاہرنقوی کو دوسرے شوکاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا جس میں انہوں نے شوکاز واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کونسل کی کارروائی روایات کے خلاف غیرضروری جلد بازی میں کی جا رہی ہے، جسٹس مظاہر نقوی کےخلاف کارروائی قانونی تقاضوں کے بھی خلاف ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریفرنس فیصلےکی نفی ہے، کونسل کو اپنے آئینی اختیارات نہایت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے چاہئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے معاملے میں غوروفکر کیا گیا اور نہ ہی اس کی اجازت دی گئی، جسٹس مظاہر نقوی پر لگائےگئے الزامات بغیر ثبوت اور میرٹ کے خلاف ہیں، زیادہ تر الزامات جائیداد یا ٹرانزیکشن سے متعلق ہیں،قانون کی نظر میں لگائے گئے الزامات برقرار نہیں رہ سکتے۔

جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات زیر سماعت

واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات زیر سماعت ہیں، انہوں نے اپنے خلاف ریفرنس کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے دوسرے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کروایا تھا۔

جوڈیشل کونسل میں جمع کروائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف شکایات بے بنیاد ہیں، کھلی عدالت میں آئینی درخواستیں زیر سماعت ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی بلاجواز ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو جواب جمع کرانے کا آخری موقع دیا تھا، جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف جوڈیشل کونسل کا آئندہ اجلاس 11 جنوری کو منعقد ہونا تھا مگر جسٹس مظاہر نے اس سے ایک دن پہلے ہی استعفیٰ دے دیا اور پھر ان کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہوگئے۔

Supreme Court

اسلام آباد

Justice Qazi Faez Isa

justice mansoor ali shah

justice mazahir ali akbar naqvi

Chief Justice Qazi Faez Isa

Justice Ejaz ul Ahsan