لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن سروے پر پابندی کیخلاف درخواست نمٹادی
لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن سروے پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے پیمرا کے جاری کیے گئے نوٹسز واپس لینے کی یقین دہانی پر درخواست نمٹا دی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے الیکشن سروے پر پابندی کے خلاف حبیب اکرم سمیت دیگر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی، میاں داود ایڈووکیٹ اور اینکر پرسن حبیب اکرم عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا سروے پر پابندی کا اطلاق الیکشن ڈے پر ہوگا یا اس کے علاؤہ بھی پابندی ہے، اگر سروے ہی نہیں کر سکتے بات نہیں کرسکتے تو شفافیت کیسے ہوگی؟۔
درخواست گزاروں کی جانب سے محمد عاطف امین اور میاں داؤد ایڈووکیٹ نے دلائل دیے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت پر اپنا جواب عدالت میں جمع کرا دیا۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ الیکشن سروے پر پابندی کا اطلاق صرف الیکشن ڈے کی حد تک ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ پیمرا نے جو نوٹسز جاری کیے ہیں وہ پھر واپس لے لیں جس پر سرکاری وکیل نے آگاہ کیا کہ جو نوٹسز جاری کیے تھے وہ واپس لے لیے ہیں۔
جسٹس علی باقر نجفی نے فریقین کے جواب کی روشنی میں درخواست نمٹا دی۔
الیکشن سروے پر پابندی کےخلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا کہ الیکشن سروے پر پابندی کا اطلاق صرف الیکشن دن کی حد تک ہے، پیمرا نے جو نوٹسز جاری کیے ہیں واپس لے لیے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن (ای سی پی) کی جانب سے ٹیلی ویژن (ٹی وی) چینلز پر الیکشن سروے کرنے کی پابندی کے اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔
ایڈووکیٹ میاں داؤد کی وساطت سے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی، درخواست میں پاکستان الیکٹرانک ایند ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجٹل میڈیا پر پابندی لگائی ہے، الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کا کلاز 12 آئین پاکستان کے متصادم ہے، ایسا کر کے الیکشن کمشن نے آئین کے آرٹیکل 4 ،19 اور 19 اے کی خلاف ورزی کی ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کا اقدام بنیادی انسانی حقوق اور معلومات تک رسائی کے اقدام کے خلاف ہے، استدعا کی گئی کہ عدالت الیکشن کمیشن کی جانب سے لگائی گئی پابندی کے اقدام کو کالعدم قرار دے۔
یاد رہے کہ 29 دسمبر کو عام انتخابات سے متعلق ای سی پی نے قومی میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا۔
جس میں کہا گیا تھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس میں کوئی بھی صحافی، اخبار، چینل اور دیگر سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والے کسی بھی پولنگ اسٹیشن یا حلقے میں داخلی اور خارجی انتخابات یا کسی بھی قسم کے سروے کرنے سے گریز کریں گے جس سے ووٹرز کا ووٹ ڈالنے کا آزادانہ انتخاب یا کسی بھی طرح سے اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہو۔
ضابطہ اخلاق میں مزید بتایا گیا تھا کہ ووٹنگ کے عمل کے لیے ایک بار فوٹیج بنانے کے لیے صرف تسلیم شدہ میڈیا والوں کو پولنگ اسٹیشن میں کیمرہ کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت ہوگی، وہ بیلٹ کی رازداری کو یقینی بنائیں گے اور اسکرین شدہ ڈبے کی فوٹیج نہیں بنائیں گے تاہم میڈیا اہلکاروں کو اس عمل کی کوئی فوٹیج بنائے بغیر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کرنے کی اجازت ہوگی۔
بعد ازاں یکم جنوری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پابندی کے باوجود انتخابی سروے کرانے پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پیمرا کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ میڈیا کے لیے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت سروے کرنے پر پابندی ہے، مراسلے میں کہا گیا ہے کہ متعدد ٹی وی چینلز حلقوں کے سروے کر رہے ہیں، سروے ووٹرز پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہیں۔
Comments are closed on this story.