مشرف کے مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیئے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ بار کے وکیل رشید اے رضوی نے مارشل لاء کا ذکر چھیڑ دیا جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے ماضی میں نہ جانے کا مشورہ دیا جبکہ چیف جسٹس نے ماضی سے سبق سیکھنے کے ریمارکس دیے تو جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بالکل جائیں مشرف نے آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں، اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف کے مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیئے، ہمیں سچ بولنا چاہیئے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کی سزا کے خلاف اپیل اور لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
خصوصی عدالت کو غیر قانونی قرار دینے والے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف حامد خان دلائل کے لیے پیش ہوئے۔
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ حامد خان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف تحریری دلائل عدالت میں جمع کرا دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل مکمل ہوگئے ہیں، اب ہم تحریری معروضات کا جائزہ لے لیں گے۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے ہارون الرشید نے دلائل تو چیف جسٹس نے تیاری نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا۔
سندھ ہائیکورٹ بارکے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل میں پرویزمشرف کے مارشل لاء کا ذکر کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے روکتے ہوئے کہا کہ رشید رضوی صاحب ماضی میں کب تک جائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مجھے جسٹس اطہرمن اللہ کا احترام ہے مگر ہمیں اب ماضی میں جانا چاہیئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ بالکل جائیں پھر اسی مشرف نے 12ا کتوبر کو بھی آئین توڑا، اسمبلیاں توڑیں، 12 اکتوبر کے اقدام کو اسی عدالت نے راستہ دیا، مشرف مارشل لاء کو قانونی کہنے والے ججوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ کارروائی صرف 3 نومبرکے اقدام پر کیوں کی گئی؟ 3 نومبر کو صرف ججوں پر حملہ ہونے پر کارروائی ہوگی تو فئیر ٹرائل کا سوال اٹھے گا، کیا ججوں پر حملہ اسمبلیاں توڑنے آئین معطل کرنے سے زیادہ سنگین معاملہ تھا؟ ہمیں سچ بولنا چاہیئے، اگر کسی فیصلے کو ختم ہونا ہے تو اسے ہونا چاہیئے، جس نے مارشل لاء کوراستہ دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ماضی میں ہوچکا اسے میں ختم نہیں کرسکتا قوم بننا ہے تو ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو ٹھیک کرنا ہے، سزا اور جزا اوپر بھی جائے گی، وکیل آکر بتائیں ناکہ آئین توڑنے والے ججوں کی تصویریں یہاں کیوں لگی ہیں، جج ہی یہاں بیٹھ کر کیوں پوائنٹ آوٹ کریں، میڈیا بھی ذمہ دار ہے ان کا بھی احتساب ہونا چاہیئے، بتائیں کتنے صحافی مارشل لاء کے حامی کتنے خلاف تھے؟ ہمیں تاریح سے سیکھنا چاہیئے، بچوں کو بھی سیکھانا چاہیئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ تاریخ پھر یہ ہے کہ جب کوئی مضبوط ہوتا ہے اس کے خلاف کوئی نہیں بولتا، جب طاقتور کمزور پڑ جاتا ہے اس کے بعد عاصمہ جیلانی والا فیصلہ آجاتا ہے۔
وکیل رشید اے رضوی نے غیرآئینی اقدامات کا جواز پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا موقف اپناتے ہوئے دلائل مکمل کیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ وفاق نے لاہورہائیکورٹ کی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا، اس وقت حکومت کس کی تھی؟، جس پر حامد خان نے بتایاکہ پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اب ہم آپ کوشرمندہ نہیں کرنا چاہتے، آپ اپنے گھرسے ہوئی غلط بات کوغلط کہنے کھڑے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ پرویزمشرف کے خلاف کارروائی شروع ہونے پر اس وقت کی حکومت بھی کارروائی نہیں چاہتی تھی، اس وقت کس کی حکومت تھی؟، جس پر حامد خان نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم سزا بھی برقرار رکھیں اور سب کو پینشن اور مراعات بھی ملتی رہیں یہ نہیں ہوگا۔
مزید پڑھیں
پرویزمشرف کیس: ہائیکورٹ کا فیصلہ دائرہ اختیار نہ ہونے پر برقرار نہیں رہ سکتا، چیف جسٹس
پرویز مشرف کی سزا کیخلاف اپیل مقرر کرنے کی متفرق درخواست منظور
جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کنفیوز لگ رہے ہیں انہیں شاید وہ سیم پیج مل نہیں رہا۔
حکم نامے میں سوال کیا گیاکہ ملزم کی وفات پرکیا اپیل غیر مؤثرنہیں ہوئی؟ کیا سزا برقراررہنے پرمشرف کی فیملی کو مراعات دینی چاہیں یا نہیں؟۔
بعدازاں عدالت عظمیٰ نے سماعت 10 جنوری تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.