Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کردیا

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے 14 دن میں جواب بھی طلب کرلیا گیا
شائع 22 نومبر 2023 09:30pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ فائل

سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر سپریم جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں اہم پیش رفت سامنے آگئی، جوڈیشل کونسل کے 5 ممبران میں سے 4 ایک کی اکثریت سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 روز میں جواب طلب کرلیا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف درج درخواست پر شکایت کنندہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس آج بھی ہوا۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات پر سامنے آنے والے شواہد کی روشنی میں تفصیلی شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا۔

ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سے 14 دن میں جواب بھی طلب کیا گیا ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو شوکاز نوٹس چار ایک کی اکثریت سے جاری کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس نعیم افغان نے شوکاز جاری کرنے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے شوکاز نوٹس جاری کرنے کی مخالفت کی۔

جوڈیشل کونسل اجلاس میں جسٹس مظاہری علی اکبر نقوی کے خلاف 10 شکایت کنندگان کو سنا گیا جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے اعتراضات کا بھی جائزہ لیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کے اعتراضات میں سے 2 اعتراضات کی وضاحت ہونے پر واپس بھی لیے گئے، آج صرف کونسل ارکان کی جانب سے مشاورت کی گئی تھی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی کیخلاف آڈیو لیک کو بنیاد بنایا گیا تھا جبکہ دیگر شکایات آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایت کنندگان کے دلائل مکمل ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ 20 نومبر کو ہونے والی سماعت میں جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے تھے۔

خواجہ حارث نے جسٹس مظاہر نقوی کا خط کونسل میں پیش کیا تھا۔ خط میں سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواست کے فیصلے تک کونسل کی کارروائی موخر کرنے کی استدعا کی گئی۔

جسٹس مظاہر نقوی کی سپریم کورٹ میں درخواست

اِدھر جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ جس جائیداد کو لے کر سپریم جوڈیشل کونسل میں میرے خلاف شکایت بھیجی گئی وہ جائیداد ڈیکلیئرڈ ہے اور اس کے لیے نا تو مجھے ٹیکس اور نہ ہی رجسٹریشن اتھارٹیز کی جانب سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی درخواست میں سوال اٹھایا ہے کہ ایک ڈیکلیئرڈ اثاثے کے خلاف کوئی ایسا شخص جس کا اس جائیداد کی خرید و فروخت سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں وہ کیسے شکایت کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ میرے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والی کارروائی بدنیتی پر مبنی ہے اور میڈیا میں میری کردار کشی عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے احتساب کے لیے قائم ادارے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف شروع ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جس میں ملک کے نامور وکلا سردار لطیف کھوسہ، خواجہ حارث احمد، مخدوم علی خان، سید علی ظفر اور سعد ممتاز ہاشمی ان کے مقدمے کی نمائندگی کریں گے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف 16 فروری 2023 سے بدنیتی پر مبنی مہم جاری ہے اور ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے جو کہ عدلیہ کی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

جسٹس نقوی نے لکھا ہے کہ جس انداز میں انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا وہ نا صرف شفاف ٹرائل بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بھی منافی ہے، جسٹس نقوی نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ ان کو جاری ہوئے اظہار وجوہ کے نوٹسز کے بارے میں ان کی مرضی کے بغیر پریس ریلیز جاری کی گئی جس سے ان کا میڈیا ٹرائل شروع ہو گیا اور عوام میں ان کے خلاف منفی تاثر پھیلایا گیا۔

جسٹس مظاہر نقوی کا اظہار وجوہ کے نوٹسز پر ابتدائی جواب

سپریم جوڈیشل کونسل نے 27 اکتوبر کو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ان سے متعلق شکایات کے حوالے سے اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے تھے، تاہم جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے 10 نومبر کو ابتدائی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ آئینی اعتبار سے کسی جج کو نوٹسز جاری کرنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کا متفقہ فیصلہ ضروری ہوتا ہے جبکہ میرے خلاف شکایات پر کونسل کے 3 اراکین نے شوکاز نوٹسز جاری کرنے کی حمایت کی۔

انہوں نے کہا ہے کہ دوسرے جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خلاف شکایات پر درخواست گزار آمنہ ملک کو نا صرف نوٹسز جاری کیے گئے بلکہ ان سے تحریری مواد بھی طلب کیا گیا جو میرے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا اور نا ہی وہ مواد مجھے مہیا کیا گیا جس کی بنا پر میں کوئی جواب تحریر کر سکوں اور میرے خلاف شکایات کے بارے میں بتایا نہیں گیا۔

اس کے علاوہ جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر بھی اعتراضات اٹھائے تھے کہ اس کے چیئرمین چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان کی بطور جج سپریم کورٹ نامزدگی کی مخالفت کی تھی، ان کے جنرل مشرف سنگین غداری مقدمے کے فیصلے کے خلاف تحریری نوٹ لکھا تھا۔

جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے سربراہ بھی رہے جس میں ان (جسٹس نقوی) سے متعلق ایک آڈیو بھی زیر تفتیش تھی اور اسی حوالے سے انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان کی سپریم جوڈیشل کونسل میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا کیونکہ وہ بھی آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے رکن تھے۔

الزامات کیا ہیں؟

جسٹس مظاہر نقوی پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور سپریم کورٹ جج اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی آمدن سے زیادہ مہنگی لاہور میں جائیدادیں خریدی ہیں لہذا سپریم جوڈیشل کونسل اس کو فروخت کرے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف کارروائی کرے۔

Supreme Court

اسلام آباد

Justice Qazi Faez Isa

supreme judicial council

justice mazahir ali akbar naqvi