نواز شریف کا فیصلہ 21 نومبر کو، عمران خان کا 22 نومبر کو متوقع- اپیلیں سماعت کے لیے مقرر
سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی اپیلوں کے حوالے سے بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز اپیلیں 21 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کردی ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 22 نومبر کو پی ٹی آئی کی اپیلوں پر سماعت کرے گا،بینچ میں جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس عائشہ ملک بھی میں شامل ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی ہیں۔فرد جرم کی کارروائی کو بھی چیلنج کیا گیا ہے ۔رجسٹرارآفس نےچیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کونوٹس جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل دو رکنی بینچ اکیس نومبر کو نوازشریف کی اپیلوں پر سماعت کرے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیلیں بحال کر دی تھیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامرفاروق کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اپیلوں کے خلاف درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔
اس سے قبل پنجاب کی نگران حکومت نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی سزا معطل کردی تھی۔
نگران پنجاب کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے سزا معطلی کی منظوری دی تھی۔
نگراں وزیراطلاعات عامر میرکے مطابق نگران کابینہ نے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سزا معطل کی تھی، جو کرمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت معطل کی گئی۔
نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی، اور دس سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی کرتے ہوئے ان کے نام تمام جائیداد ضبط اور چار ارب روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انہیں باعزت بری کیا تھا۔
العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا، تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
فیصلے کے خلاف لیگی سربراہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور بعد ازاں عدالت عالیہ نے العزیزیہ ریفرنس میں مشروط طور ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اپیلوں کی اہمیت
نواز شریف وطن واپس آکر سیاست میں حصہ لے رہے ہیں لیکن جب تک ان کی سزا ختم نہیں ہوتی ان کا اپنا سیاسی مستقبل اور اس کے نتیجے میں ان کی جماعت کا انتخابی مستقبل غیر یقینی رہے گا۔
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ 21 نومبر کو کیا فیصلہ آئے گا لیکن ہر دو صورت میں یہ فیصلہ پاکستانی سیاست کی سمت کا تعین کرے گا۔
ایون فیلڈ ریفرنس
ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کیس میں ان پر الزام تھا کہ وہ لندن میں موجود اپنی رہائش گاہ ایون فیلڈ میں اپارٹمنٹ خریدنے کے ذرائع بتانے سے قاصر تھے۔
احتساب عدالت نے اس مقدمے میں نواز شریف کو 2018 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل قید کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف کے علاوہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو بھی قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد میں دونوں کو ہائی کورٹ سے بریت مل گئی تھی۔ نواز شریف کا کیس ان کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے علیحدہ کردیا گیا تھا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز کیس
العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا ملی تھی۔ اکتوبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کے لیے نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اُنہیں 20، 20 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اس ضمانت میں توسیع کا حق پنجاب حکومت کو دیا گیا تھا جس نے ایسا نہیں کیا۔ نواز شریف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کے لیے بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو دسمبر 2020 کو انہیں اشتہاری قرار دیا تھا۔
Comments are closed on this story.