’کوئی کہہ رہا ہے قمرزخمی ہو گیا،پانی دیا کہ نہیں۔ پیاس لگی ہو گی اُسے‘
ڈیرہ اسماعیل خان کئی کئی دہائیوں سے قتل و غارت کا میدان بنا ہوا ہے۔ بم دھماکے ،خودکش حملے اور نتیجے میں سالہا سال سے بھرتے قبرستان ۔۔ڈی آئی خان کا کوٹلی امام ہو یا پھر علاقے کے دوسرے قبرستان، جب آپ وہاں داخل ہوں تو دور دور تک آپ کو دہشت گردی میں قتل کیے جانے والوں کی قبریں ہی قبریں دکھائی دیں گی۔
ضلع کا کوئی علاقہ، محلہ یا گھر ایسا نہیں ملے گا جہاں کسی بے گناہ مقتول کے خون کے دھبے نہ ہوں ۔ماؤں کی سسکیاں ،سہاگنوں کے آنسوں اور جوانوں کی لاشیں ڈھوتے بوڑھے والدین کے جھکے ہوئے کندھے جیسے ڈی آئی خان کا مقدر بن گئے ہیں ۔مجھے اپنے کانوں میں ان ماؤں کی چیخیں آج بھی سنائی دیتی ہیں جنھوں نے شوبرا ہوٹل کے سامنے جاتے جنازے میں شریک اپنے چاند سے بیٹے دہشت گردی میں کھوئے تھے اور آج ایک بار پھر ہتھالہ میں قمر زمان کی ماں پوچھتی ہے کہ
“ قمرتونویں کلاس کا پرچہ دینے گیا تھا۔ کہتا تھا بڑا ہو کر تمھارا اور ابا کا سہارا بنوں گا۔ تو کہاں گیا وہ“
ماں اپنے لاڈلے بیٹے کی جدائی برداشت نہیں کرپا رہی ہے۔ایک ماں کو بیٹے کی جدائی کا غم بھلانے کےلئے گذشتہ 24 گھنٹوں سے مسلسل انجکشن لگا کر سلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن وہ جب بھی جاگتی ہے ۔اُس کے سوال لوگوں کو رلا دیتے ہیں۔ اس کے بھائی نے آج ڈیجٹل کی ٹیم کو بتایا کہ ایک بار تو چیختی ہوئی گلی کی طرف بھاگی اور بول رہی تھی
“کوئی کہہ رہا ہے کہ قمر زخمی ہو گیا ۔۔زبیر سے پتا کرو ۔۔قمر کو پانی دیا کہ نہیں ۔پیاس لگی ہو گی اُسے “
ڈیرہ اسماعیل خان دھماکے نے جن 5 گھرانوں کے چراغ بجھائے ان میں سے ایک ہتھالہ کے علاقے کا رہائشی نویں جماعت کا طالب علم قمر زمان بھی تھا ۔ہتھالہ کے سبزی فروش حبیب الرحمان کو اللہ تعالہ نے 4 اولادوں سے نوازا جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔حبیب الرحمان کی واحد اولاد نرینہ قمر زمان گذشتہ روز فزکس کا پرچہ دے کر واپس آ رہا تھا کہ ٹانک اڈہ کے قریب ہونے والے دھماکے میں جان سے چلا گیا اور یوں پڑھ لکھ کر غریب گھرانے کی قسمت بدلنے کا خواب اپنے ساتھ لے کر قبر میں دفن ہو گیا ۔
قمر زمان کا ماموں محمد بلال قمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں یاد کرکے رودیا ۔ کہنے لگا کل ماں کو بتا رہا تھا کہ پرچے کے بعد ایک ہفتہ ماموں کی طرف لگاؤں گا اور کچھ مزدوری کرکے واپس آوں گا تاکہ گھر کا گیٹ لگ جائے اور پھر ہم نئے گھر میں شفٹ ہو جائیں ۔گذشتہ سال سیلاب سے گھر کھونے والے اس خاندان نے پیسہ پیسہ جوڑ کر دوبارہ دو کمروں کا ایک گھر تیار کیا تھا لیکن اب بھی اس میں کئی کام باقی تھے جو قمر زمان نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے لیکن بدقسمتی کہ معذور بہن اور والدین کو سکھ دینے کے وہ حسین خواب کسی کی پراکسی وار کی نذرہو گئے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر دھماکے کے بعد مارنے والے کفر کے حامیوں کے قتل کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن لاشیں معصوم اور بے بس مسلمانوں کی ہی گرائی جاتیں ہیں ۔
Comments are closed on this story.