Aaj News

جمعرات, نومبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو فوری عام انتخابات کا اعلان کرنے کا حکم

الیکشن کمیشن نے 11 فروری کو انتخابات کی تاریخ دے دی، بدلنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 03 نومبر 2023 06:22am

90 روز میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملک میں عام انتخابات 11فروری کو ہوں گے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایک دفعہ تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہو گی، تاریخ بدلنے نہیں دیں گے۔

سپریم کورٹ میں عام انتخابات 90 روز کے اندر منعقد کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، دیگر دو ارکان میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسٹرم پر بلالیا اور استفسار کیا کہ عدالت کو بتائیں عام انتخابات کے معاملے پر کیا پیش رفت ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا کہ 29 جنوری کو حلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہو جائیں گے، اور 11 فروی کو ملک بھر میں انتخابات ہوں گے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 3 سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے، 5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 روز گننیں تو 29 جنوری بنتی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا کہ انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئے اتوار ڈھونڈ رہے تھے، 4 فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے، جب کہ دوسرا اتوار 11 فروری کو بنتا ہے، 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک دفعہ تاریخ کا اعلان ہو جانے پر تصور کیا جائے یہ پتھر پر لکیر ہو گی، تاریخ بدلنے نہیں دیں گے، ہم اسی تاریخ پر انتخابات کا انعقاد یقینی بنوائیں گے، عدالت اپنے فیصلے پرعمل درآمد کروائے گی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ چیف الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت سے انکار کیوں کیا، آئین کے تحت تاریخ کا تقرر صدر کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن تاریخ سے متعلق صدر سے مشورہ کیا گیا، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، صدر بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن صدر مملکت سے آج ہی مشاورت کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو صدرمملکت سے مشاورت کے فیصلے پرآگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے حکام صدر پاکستان سے ملاقات کریں گے، اور الیکشن کمیشن صدر مملکت سے کم سے کم وقت میں مشاورت کرے گا، صدر سے عام انتخابات کی تاریخ پر مشاورت ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صدرجواب دیں نہ دیں آپ نے دستک ضرور دینی ہے، آج ہی صدر سے رابطہ کریں، فون اٹھائیں اور صدرکے ملٹری سیکرٹری کو ملائیں، اٹارنی جنرل مشاورتی عمل میں آن بورڈ رہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوتاریخ دی جائے اس پرعملدرآمد کرنا ہوگا، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔

سپریم کورٹ نے آج ہی عام انتخابات کے اعلان کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کےاعلان کے بعد کل عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ توقع کرتے ہیں کہ صدر سے مشاورت کے بعد کل عدالت کو بتائیں گے، انتخابات کی جو بھی تاریخ طے کی جائے، سب کے دستخط ہوں۔ فاروق نائیک اورالیکشن کمیشن کے وکیل بھی اٹارنی جنرل کے ساتھ جا سکتے ہیں۔

آج کی سماعت کا حکمنامہ

چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوایا اور ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ صرف انتخابات چاہتی ہے کسی اور بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد کسی درخواست کو نہیں سنا جائے گا۔

حکمنامے کے مطابق 5 دسمبر کو حلقہ بندیوں کے نتائج شائع ہوں گے، حلقہ بندی شائع ہونے کے بعد انتخابی پروگرام جاری ہوگا، انتخابی پروگرام 30 جنوری کو مکمل ہوگا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن چاہتا ہے انتخابات اتوار کے دن ہوں، انتخابی پروگرام کے بعد پہلا اتوار 4 فروری بنتا ہے، الیکشن کمشن چاہتا ہے انتخابات 11 فروری کو ہوں۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آج صدر سے ملاقات کرکے انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے، صدر اور الیکشن کمشین کے درمیان جو بھی طے ہو عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے، اور تحریر پر صدر اور الیکشن کمیشن کے دستخط ہونا لازمی ہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ الیکشن کمشنر اپنے ممبران سے خود مشاورت کرے، آج کے عدالتی حکم پر ابھی دستخط کریں گے۔

سپریم کورٹ نے عدالتی حکم کی تصدیق شدہ نقول صدر، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اپنا پروگرام عوام میں لے کر جائیں، جسے پسند آئے گا عوام ووٹ دے دیں گے۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر سے ملاقات کر کے کل سپریم کورٹ کو آگاہ کرے، فیصلے کی تین سرٹیفائڈ کاپیز ابھی دیں گے، دستخط شدہ کاپیز صدر مملکت، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کو ابھی دی جائیں گی، الیکشن کمیشن اپنی اندرونی کارروائی آج ہی مکمل کرے، الیکشن کمیشن کل کچھ اور آکر نہیں کہہ دے۔

پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل

کیس میں سپریم کورٹ بار، پی ٹی آئی سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کررکھی ہیں۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آٸی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے دلاٸل کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ اپنی استدعا صرف ایک نقطہ تک محدود رکھوں گا کہ الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہئیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 90 روز میں الیکشن کرانے کا معاملہ تو غیرموثر ہوچکا، آپ اب صرف الیکشن چاہتے ہیں۔ جس پر علی ظفر بولے، ’یس ماٸی لارڈ‘۔ صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90 دن کے اندر الیکشن کی تاریخ دے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیر اعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے؟، علی ظفر نے کہا کہ ضروری نہیں ہے صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے وہ تاریخ دے۔

جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہےَ اس پرعلی ظفرنے کہا کہ میری رائے میں صدر نے تاریخ دے دی ہے، مگر الیکشن کمیشن نے کہا یہ صدر کا اختیار نہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ، ’کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی، صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے؟ ۔ جستس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ صدرنے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے صدر کا خط پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس ہر تو کسی کا اعتراض نہیں؟ جس پر بیرسٹرعلی ظفر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے ۔ 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ صدر کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟۔ چیف جسٹس نے بھی کہا کہ کیا صدرنے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا؟۔

علی طفر کی جانب سے ، ’نہیں ایسا نہیں ہے‘ کہنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیسے پڑھ رہے ہیں، صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے۔ صدرنےجب خود ایسا نہیں کیا تو وہ یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں۔ علی ظفر کیا آپ کہہ رہےہیں صد رنے اپنا آئینی فریضہ ادانہیں کہا؟ 9 ا گست کو اسمبلی تحلیل ہوٸی اور صدر نے ستمبرمیں خط لکھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے، صدرنےتاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

معاملے کا جوڈیشل نوٹس لے سکتے ہیں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتےرہیں۔ ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں۔ آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ میری نظرمیں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویزکردی، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں؟ کیاآپ چاہتےہیں کہ ہم صدرکوہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں؟ صدرکہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے، کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پرعدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیارہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو کیا ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔ کیا آپ یہ کہناچاہتےہیں کہ صدرنےاپنی ذمہ داری پوری نہیں کی؟ انتحابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہاکہ صدر تاریخ دے؟ علی ظفر بولے کہ ن الیکشن کمیشن نےکہا کہ انتحابات کی تاریخ دینےکااختیارہمارا ہے،صدر مملکت کا پہلو ایک جانب رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیئے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدرکیخلاف جا کرخود انتحابات کی تاریخ دے سکتے ہیں،آئین پاکستان میں ہمیں تاریخ دینے کا اختیارکہاں ہے؟۔

پی ٹی آئی وکیل کی جانب سے یہ کہنے پر کہ، ’سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کرچکی ہے‘، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا۔

آپ کے لیڈر صدر کے بھی تو لیڈرہیں، فون کر کے کیوں نہیں کہا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدرکے بھی لیڈر ہیں، صدرکوفون کرکے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں؟۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تویہ ہے کہ صدرنے آئین سے انحراف کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظرمیں حکومت ،الیکشن کمیشن اورصدر تینوں ذمہ دارہیں،اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ انتخابات تووقت پر ہونے چاہیں۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ علی ظفرصاحب کیاآپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کررہے ہیں؟ آپ صدرکو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتےکہ تاریخ دیں؟’۔

جواب میں پی ٹی آئی وکیل کا کہنا تھا کہ وہ صدرپاکستان ہیں ، پورےملک کے صدر ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدرپھرخود رائے لینے آتے بھی نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کیلئے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دارہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقررہ مدت سے اوپ روقت گزرنے کے بعد ہردن آئینی خلاف ورزی ہورہی ہے،صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔

پی ٹی آئی وکیل بیرسٹرعلی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بدرخواستگزارمنیراحمد کے وکیل انور منصور نے دلائل کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی ترمیم شدہ درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروا چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اوروفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کر رکھا ہے۔

یہ اس معاملے پرسپریم کورٹ کی دوسری سماعت ہے، کیس کی گزشتہ سماعت 23 اکتوبر کو ہوئی تھی ۔

گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئےریمارکس دیے تھے کہ درخواستوں میں مختلف نوعیت کی استدعا کی گئیں ہیں۔

عدالت نے درخواست گزاروں کی لارجر بنچ نہ بنانے کی استدعا بھی منظور کرتے ہوئے سماعت دو نومبر تک ملتوی کردی تھی۔

Supreme Court

general elections

Election commission of Pakistan

general elections 2023