Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

نیب ترامیم کیس، جسٹس منصورعلی شاہ کا 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری

قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، جسٹس منصور
اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2023 04:49pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ سپریم کورٹ

نیب ترامیم کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے رکن جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے، جس میں ان کا کہنا ہے کہ قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا اور عدالت نے 1-2 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا تھا۔ بینچ میں شامل جسٹسس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا، اور ایک اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔

فیصلے کیخلاف جسٹس منصور علی شاہ کا 27 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ جاری کردیا گیا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے بنجمن کارڈوزو کے قول سے نوٹ کا آغاز کیا، اور لکھا کہ کارڈوزونے کہا تھا اکثریت کی آواز طاقت کی فتح کی ہو سکتی ہے، انٹونیا سکالیا نے درست کہا تھا اختلاف عدالت کے وقار کو کم کرنے کے بجائے بڑھاتا ہے،عدالتوں کو ہنگامہ آرائی سے بالا اور بدلتی سیاست سے بے نیاز ہوکر جمہوریت کے مستقبل پر نگاہیں جمانی چاہیے، سیاسی جماعتوں کے برعکس عدالتوں کو عوامی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، عدالتوں کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے بھلے عوامی جذبات ان کے خلاف ہوں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل سماعت کیلئے مقرر

جسٹس منصور شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ درخواست گزار نیب ترامیم کو عوامی مفاد کے برعکس ثابت کرنے میں ناکام رہا، عدلیہ قانون سازی کا جائزہ تب لے سکتی ہے جب انسانی حقوق سے متصادم ہو۔ قانون سازوں کےمفاد کو سامنے رکھ کر قانون سازی جانچنا پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔

اختلافی نوٹ میں تحریر ہے کہ درخواست گزار نہیں بتا سکا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کا فوجدرای قوانین کے احتساب کیسے بنیادی حق ہے، جب کہ نیب ترامیم کے ترامیم کے حوالے سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق کا موقف غیر یقینی ہیں، اگر درخواست گزار کے بنیادی حقوق سے متعلق ایسا موقف تسلیم کیا گیا تو پارلیمان کیلئے کسی بھی موضوع پر قانون سازی مشکل ہوگی، عدلیہ کو اس وقت تک تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جب تک آئینی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔

جسٹس منصور شاہ نے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ عوامی ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ نے نیب قانون میں ترامیم کیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے نیب ترامیم کی مخالفت یا حمایت کے بجائے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا، جمہوریت کی بقاء کے لیے باہمی برداشت اور تحمل لازم ہے، فیصلے سے متفق نہیں کیونکہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے اور اکثریتی فیصلہ پبلک سرونٹ کی درست تعریف کرنے میں ناکام رہا، تعزیرات پاکستان کے تحت بھی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی ممکن ہے کیونکہ تعزیرات پاکستان کے تحت پبلک آفس ہولڈر پبلک سرونٹ ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ

واضح رہے کہ 15 ستمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ شامل کیا گیا تھا، جس میں لکھا تھا کہ میں نے گزشتہ رات اکثریتی فیصلہ پڑھا، میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا، اور نیب ترامیم کیخلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتا ہوں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ کیس میں بنیادی سوال نیب ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالا دستی کا تھا، لیکن میری رائے میں اکثریتی فیصلہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ ریاست کے اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کالعدم ہونے سے عمران خان کو ہی نقصان ہوگا، عرفان قادر

اختلافی نوٹ میں تحریر ہے کہ بنیادی سوال پارلیمانی جمہوریت میں آئین کی اہمیت اور ریاست کے اختیارات کی تقسیم کا ہے، اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر غیر منتخب ججز کا پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون پر فیصلہ سازی کی حدود سے متعلق ہے۔

جسٹس منصور نے لکھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتی ہے، اگر پارلیمنٹ نیب قانون بنا سکتی ہے تو اس کو واپس بھی لے سکتی ہے اور ترمیم بھی کر سکتی ہے، فیصلے میں اس بات کو نہیں پرکھا گیا کہ پارلیمنٹ نے کونسا کام غلط کیا ہے،ارکان اسمبلی کے احتساب کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیں: بنیادی سوال نیب ترامیم نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا، جسٹس منصور کا اختلافی نوٹ

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار کبھی ختم نہیں ہوتا، اکثریتی فیصلہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سمجھنے میں ناکام رہا، اکثریتی فیصلہ آئین میں دی گئی اختیارات کی تقسیم کی مثلث کو سمجھنے میں بھی ناکام رہا جو جمہوری نظام کی بنیاد ہے، سپریم کورٹ کے غیر منتخب ججز منتخب ارکان اسمبلی کی پالیسی کا کیسے جائزہ لے سکتے ہیں، بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے بغیر عدالت قانون سازی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید تحریر کیا کہ میری عاجزانہ رائے میں آئینی سکیم کیخلاف ہے، آئین کے مطابق ریاست اپنی طاقت اور اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں مزید کہنا تھا کہ وقت کی کمی کے باعث فی الحال تفصیلی وجوہات بیان نہیں کر رہا، اختلافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کروں گا۔

Supreme Court

justice mansoor ali shah

NAB amendment case