اسرائیل نے فلسطینوں پر بھوک پیاس بطور ہتھیار مسلط کردی، برطانوی تنظیم
برطانوی تنظیم آکسفیم نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کو خوراک، پانی، بجلی اور ایندھن کی سپلائی منقطع کرنے کے بعد بھوک کو ”جنگی ہتھیار“ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
آکسفیم عالمی سطح پرغربت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرتی ہے، 7 اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں کے غزہ سے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کا ”مکمل محاصرہ“ کر دیا تھا، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے میں 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ محاصرے کے علاوہ اسرائیل نے علاقے پر بے دریغ بمباری کی ہے، جس میں 6 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حکام نے غزہ تک امداد پہنچانے کے لئے مزید امدادی ٹرکوں کی اجازت دینے کی درخواست کی ہے، جنگ شروع ہونے کے بعد سے 70 سے کم امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔
بدھ کے روزایک بیان میں آکسفیم نے کہا کہ مکمل محاصرے کے بعد سے صرف 2 فیصد خوراک غزہ میں داخل ہوئی ہے، خوراک پہنچانے کے لیے روزانہ تقریباً 104 ٹرک درکار ہیں۔
برطانوی تنظیم کے مشرق وسطیٰ کی علاقائی ڈائریکٹر سیلی ابی خلیل نے کہا کہ صورتحال خوفناک ہے، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا، عالمی رہنماؤں کو پیچھے بیٹھ کر نہیں دیکھتے رہنا چاہیے، بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار اداد کریں۔
مزید پڑھیں
انسٹا گرام نے فلسطینی اکاؤنٹس کے آگے ’دہشتگرد‘ لکھنے پر معافی مانگ لی
ماہرہ خان کو فلسطین کی حمایت کی مہنگی قیمت چکانی پڑگئی
حماس کی حمایت پر اسرائیل میں اداکارہ گرفتار
سیلی ابی خلیل نے کہا کہ ہر روز صورتحال خراب ہوتی جارہی ہے، بچوں کو مسلسل بمباری سے شدید صدمے کا سامنا ہے، ان کے پینے کا پانی آلودہ ہے، اہل خانہ کے پاس خوراک نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کھانا کھلائیں۔
آکسفیم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) اور رکن ممالک سے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے روکنے کا مطالبہ کیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ضروری خوراک، ایندھن، پانی اور طبی سامان کی فراہمی کی جا سکے۔
Comments are closed on this story.