کیا انگریزی روزنامہ ڈان نے نواز شریف کے جلسے کو ناکام قرار دیا؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے خاتمے کے بعد 21 اکتوبر ہفتہ پاکستان واپسی پر ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے لاہور کے مینارِ پاکستان میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا، جس میں ملک بھر سے ن لیگ کے حامیوں اور کارکنان نے شرکت کی، جلسے میں لوگوں کو لانے کیلئے اسپیشل ٹرینز بک کرائی گئیں، اور جلسے میں عوام کی ایک بڑی تعداد نظر بھی آئی، لیکن انگریزی روزنامے ”ڈان“ نے جلسے پر ”ڈان رپورٹ“ کی بائی لائن سے جو رپورٹ پیش کی وہ سوشل میڈیا پر کافی زیر بحث ہے۔
ڈان نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جلسے ’لاہوری تڑکہ‘ کم تھا۔ اور شہر میں ایسی گہما گہمی نہیں تھی جیسی اس طرح کے ’میگا پولیٹیکل ایونٹ‘ کے موقع پر دیکھی جاتی ہے۔
ڈان نے یہ تو اعتراف کیا کہ ریلی میں لوگوں کی ’اچھی خاصی‘ تعداد شریک تھی۔ لیکن یہ بھی کہا کہ یہ تعداد شہر پر اثر ڈالنے میں ناکام رہی اور ’مسلم لیگ ن کا قلعہ سمجھے جانے والے لاہور نے نواز شریف کی وطن واپسی کے استقبال کا جواب ٹھنڈا دیا‘۔
ڈان نے جلسے کا موازنہ 2011 کے پی ٹی آئی جلسے سے کیا اور کہا کہ ’30 اکتوبر 2011 کو، شہر کی سڑکوں پر دن بھر شور اور جاندار جشن کا مشاہدہ کیا گیا، (اس دن) تمام مرکزی سڑکوں کو موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے اپنے قبضے میں لے لیا، پارٹی گانے بجتے رہے، گاڑیوں کے ہارن بجتے رہے اور ہر قسم کی بسیں، وینز اور کوسٹریں پارٹی کے جوانوں کو مختلف مقامات پر لے جا رہی تھیں‘۔
ڈان نے ایک لیگی رہنما کا حوالہ بھی دیا جنہوں نے نواز شریف کو نوجوانوں سے غیر متعلق قرار دیا۔
لیگی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلی ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں ملک کی آبادی کا تناسب یقیناً تبدیل ہوا ہے۔ اب اس پر نوجوانوں کا غلبہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس سے اتنی مطابقت نہیں رکھتی جتنی پہلے تھی۔‘
پارٹی رہنما نے کہا کہ ’وہ (نواز شریف) ایک بزرگ آدمی ہیں، جنہیں بزرگ محافظوں نے گھیر رکھا ہے اور وہ اپنے پرانے حلقے کو متاثر کرنے واپس آئے ہیں، جب کہ اکثریت نوجوان ہے اور ان سے رابطہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔‘
مزید پڑھیں
نواز شریف کتنی بار وزیر اعظم بنے اور کب کب جلاوطنی کی زندگی گزاری؟
لوگوں کی اسپیشل ٹرینوں سے آمد
ڈان کے مطابق ہفتہ کو مختلف اوقات میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے مسلم لیگ (ن) کے 5 ہزار سے زائد کارکنوں کو لے کر چار خصوصی ٹرینیں لاہور پہنچیں۔
مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو لے کر اسپیشل ٹرینیں صبح سے لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچنا شروع ہوئیں اور یہ سلسلہ دوپہر تک جاری رہا۔
ڈان نے بتایا کہ ڈیوٹی پر موجود ریلوے افسر کے مطابق، تمام ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں، زیادہ مسافروں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔
لاہور اسٹیشن پر موجود افسر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ سے دو ٹرینیں آئیں۔ ایک کی قیادت سابق گورنر سندھ محمد زبیر کر رہے تھے اور دوسرے کی قیادت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’دونوں ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اور غالباً ہر ٹرین میں مسافروں/کارکنوں کی تعداد 3,000 سے زیادہ تھی۔‘
عہدیدار نے مزید کہا کہ پہلی خصوصی ٹرین پشاور سے لاہور پہنچی اور اس کی قیادت مسلم لیگ (ن) پشاور کے عہدیداران نے کی۔ ان ٹرینوں میں تقریباً 2000 مسافر سوار تھے کیونکہ کوچز کی گنجائش کراچی اور حیدرآباد سے آنے والی ٹرینوں سے کم تھی۔
سوشل میڈیا کا ردعمل
ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ’اربوں کی انویسٹمنٹ کو اس ایک خبر نے برباد کر ڈالا‘۔
جبکہ ایک صارف نے خبر کو ’جلسے پر گرا ایٹم بم‘ قرار دیا اور دوسرے نے لکھا کہ ’جلسہ تو وڑ گیا‘۔
Comments are closed on this story.