اسرائیل پر حملہ آور ہونے والی حماس کب وجود میں آئی اور مقاصد کیا تھے
اسرائیل پر حملہ کرنے والی فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس 1987 میں مغربی کنارے (ویسٹ بینک) اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف شروع ہونے والی فلسطینی مزاحمت کے آغاز کے بعد قائم ہوئی تھی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حماس (تحریک مزاحمت اسلامیہ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی قومیت ، بنیاد پرست جماعت ہے۔
شیخ احمد یاسین نے 1987 میں عبدالعزیز الرنتیسی کے ساتھ مل کر حماس تشکیل دی۔
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔
پہلا گروہ فلاحی و معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں اسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کا حامی ہے جبکہ دوسرا گروہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والا ہے۔ اسرائیل کے خلاف کارروائیاں زیادہ تر فلسطین کی زیر زمین عزالدین القسام بریگیڈ سر انجام دیتی ہے۔
حماس کے منشور کے مطابق یہ گروہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پُرعزم ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری ونگ ”عز الدين القسام بریگیڈ“ کی طاقت بڑھتی رہی اور سنہ 2005 کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔
2006 میں حماس نے فلسطین کے قانون ساز انتخابات میں کامیاب ہوکر 2007 میں اس وقت کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک پر سبقت لیتے ہوئے غزہ پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ مضبوط کیا۔
اس گروہ کی غزہ میں اسرائیل کے ساتھ تین بڑی لڑائیاں بھی ہوچکی ہیں۔ مجموعی طور پر حماس اور کچھ معاملات میں اس کے عسکری ونگ کو اسرائیل، امریکا، یورپی یونین، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے دہشت گردہ گروہ قرار دے رکھا ہے۔
حماس کے خلاف متعدد اسرائیلی آپریشنز کے باوجود یہ تنظیم قائم رہی اور اس نے اسرائیل کی طرف سے طاقت استعمال کرنے کا جواب خودکش حملے کرنے کی صورت میں دیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق فروری اور مارچ 1996 میں بم بنانے کے اپنے ایک ماہر کارکن یحییٰ ایاش کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بسوں میں متعدد خودکش دھماکے کیے گئے جن میں 60 کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق حماس کو 2004 میں اس وقت بڑا دھچکا پہنچا جب مارچ اور اپریل میں بالترتیب حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین اور اُن کے جانشین عبدالعزیز الرانتیسی غزہ میں اسرائیلی میزائل حملوں میں شہید ہوئے۔
Comments are closed on this story.