Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

بندہ ہائیکورٹ میں پیش نہیں ہوتا اور ضمانتیں دے دی جاتی ہیں، سپریم کورٹ کی سرزنش

ہائیکورٹ کس طرح ایک آرڈر سے تمام کیسز میں ضمانت دے رہا ہے، عدالت کا سوال
شائع 05 اکتوبر 2023 04:22pm

سپریم کورٹ نے پرویزالہیٰ کی درخواست ضمانت پر وکیل لطیف کھوسہ کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ میں بندہ پیش نہیں ہوتا اور ضمانتیں دے دی جاتی ہیں، ہائیکورٹ کس طرح ایک آرڈر سے تمام کیسز میں ضمانت دے رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

درخواست کے وکیل نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ پرویزالہی کوایک کیس میں ضمانت ہوتی ہے تو دوسرے میں پکڑ لیتے ہیں۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ملزم کو کسی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے یہ کس قانون میں لکھا ہے، اسلام آباد میں عدالت نے اس قسم کا آرڈر جاری کیا، کیا عدالتیں ملزم کو جرم کرنے کا لائسنس دے رہی ہے، ہم نے اور ان ججز نے بھی قانون کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس میں کہا کہ ہم نے اور ان ججز نے بھی قانون کے تحفظ اٹھایا ہے، فیصلہ دیا جاتا اب ملزم کی گرفتاری عدالت کی اجازت سے ہوگی، وہ ملزم ضمانت پر رہا ہو کر دو بندے قتل کردے تو پولیس کچھ نہ کرے، پولیس کیا ملزم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پہلے عدالتی اجازت لے پھر گرفتارکرے، یہ تو لائسنس ٹو کرائم والی بات ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ یہ بھی مذاق ہے ضمانت کے بعد دوسرے کیس میں پھر گرفتار کر لیتے ہیں۔

جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ یہ مذاق تو 70 سال سے ہو رہا ہے، آپ قانون کا بتائیں قانون کیا کہتا ہے۔ یہ بتائیں کہ کیا ہائی کورٹ کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے، ہائیکورٹ کس طرح ایک آرڈر سے تمام کیسز میں ضمانت دے رہا ہے، آج کل ہائیکورٹ میں بندہ پیش نہیں ہوتا اور ضمانتیں دے دی جاتی ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ ضمانتیں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ہو رہی ہیں۔ جس پر جسٹس سردار نے ریمارکس دیے پھر یہ قانون عام بندے کیلئے بھی رکھیں ناں، سب کو یہ حق دیں، پرویزالہی کے خلاف لاہورہائیکورٹ نے ایم پی او کیس میں حکم دیا کہ گرفتار نہ کیا جائے، کیا لاہورہائیکورٹ یہ حکم کر سکتا تھا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ وہ آرڈرکرسکتی ہے جو سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیس میں کیا۔ جس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ گھڑی کو بہت پیچھے نہ لے جائیں، اسی کیس پر رہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ اگر اس کیس کو غیر موثر ہی کرنا ہے تو پاکستان کا خدا حافظ ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کیسے اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کو ختم کرسکتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پاکستان کا مقدر چند لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہوسکتا۔

جسٹس سردارطارق مسعود نے کہا کہ یہ ایک سادہ سا کیس ہے آپ ہمیں غیر متعلقہ معاملات میں الجھانا چاہتے ہیں، عدالت قانون کے مطابق چلے گی۔ یہ نہ سمجھیں کہ جو ہو رہا ہے اس سے ہمیں خوشی ہورہی ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف پیش کیا کہ 25 کروڑ عوام کے حقوق کا سوال ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے وکیل خود کیس کی تیاری کر کے نہیں آئے، اور بات ہم پر ڈال رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پرویزالہی ضمانت درخواست پر سماعت آٸندہ ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

Supreme Court

Lahore High Court

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)