Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

آئندہ پیر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی آخری سماعت ہوگی، چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے ہی پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کی اجازت دی تھی، عدالت
اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2023 11:04pm

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے، اسی عدالت نے کئی بار مارشل لاء کی توثیق کی ہے، سپریم کورٹ نے ہی پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کی اجازت دی تھی، تاہم سماعت کے آخر میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آٸندہ پیر اس کیس کی آخری سماعت ہوگی۔

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی کارروائی گزشتہ سماعت کی طرح آج بھی براہ راست نشر کی جاتی رہی، اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی۔ کیس کی آئندہ سماعت اب 9 اکتوبر کو ہوگی۔

ہم ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ آج کیس کا اختتام کریں، ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرالتوا ہیں، کوٸی مزید بات کرنا چاہے تو تحریری صورت میں دے دیں۔

اختیارات کو کم نہیں 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا جا رہا ہے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس، 2 سینئر ججز پر ہوگا، اختیارات کو کم نہیں 2 سینئر ججز کے ساتھ بانٹا جا رہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہوگا، کچھ ججز سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے کچھ ایسا نہیں سمجھتے، آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا ہیں، سب کو سنیں گے۔

خواجہ صاحب آپ اپنا دلائل کا حق محفوظ رکھیں

چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، خواجہ صاحب آپ اپنا دلائل کا حق محفوظ رکھیں۔

درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کے دلائل

درخواست گزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے ایکٹ پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ نہ پڑھیں ہم پورا پڑھ چکے ہیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف پیش کیا کہ اس قانون کو خاص وجہ سے اور ایک مخصوص شخص کے لیے بنایا گیا ہے، ایکٹ کا سیکشن 3 آئین اور سپریم کورٹ رولز کے متصادم ہے، پارلیمان نے اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔

ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ ہی نہیں

چیف جسٹس نے وکیل اکرام چوہدری سے استفسار کیا کہ کیا آپ دلاٸل صرف نیوز رپورٹس کی روشنی میں دے رہے ہیں۔ جس پر وکیل اکرام چوہدری نے بتایا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کاررواٸی کا ریکارڈ ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا۔ وکیل اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ نہیں میں نے ریکارڈ کیلٸے خط نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ اور جوڈیشری الگ الگ ادارے ہیں، آپ نے خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ دلیل سنے۔

آپ قوم کے نمائندے ہیں نہ ہی ہم

وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ قوم کے نمائندے ہیں نہ ہی ہم، اس لئے اپنی بات کریں، اخبار میں آنے والی خبریں ہوسکتا ہے درست نہ ہوں، اپنے کیس تک خود کو محدود رکھیں۔

عدالت کو سیاسی تقریر کیلئے استعمال نہ کریں

وکیل اکرام چوہدری نے ایک بار پھر خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم چاہتے تھے چیف جسٹس کو طلب کیا جائے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایسی بات بالکل نہ کریں، جس کی بات کررہےہیں انہیں آپ نے فریق ہی نہیں بنایا، عدالت کو سیاسی تقریر کیلئے استعمال نہ کریں۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وہ خبریں نہ پڑھیں جن کا کیس سے تعلق نہیں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسےعدلیہ کے حق کوسلب کیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں؟ اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔

وکیل اکرام چوہدری کی جانب سے حسبہ بل کیس کا حوالہ دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حسبہ بل قانون بنا ہی نہیں تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے۔

وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے ذریعے آئین کی نفی کی گئی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت کہہ چکی کہ آئینی ترمیم کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر اگر آئینی ترمیم سے آتا تب بھی فیصلہ آپ کے راستے میں رکاوٹ تھا۔

عدالت کی آزادی لوگوں کیلئے نہیں ہے

چیف جسٹس نے اکرام چوہدری نے استفسار کیا کہ جب آپ عدالتی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ ازخود نایاب چیز ہے یا عوام لوگوں کیلئے، کیا عدالتی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی آزادی لوگوں کیلئے نہیں ہے، اس بات پر روشنی ڈالیں، اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے بیوہ عورتوں کے کیسز کو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوگی، قانون سازی سے اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار یا دشوارکررہی ہے تو یہ بتائیں، کیا عدالتی آزادی ہدف ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے۔

عدلیہ حکومت کا ذیلی محکمہ نہیں

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل اکرام چوہدری کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے بہت محنت کی ہے چوہدری صاحب، جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، عدلیہ حکومت کا ذیلی محکمہ نہیں۔

سپریم کورٹ نے اس مارشل لاء کی توثیق کی

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کتاب پہلے مارشل لاء کے بعد لکھی گئی، سپریم کورٹ نے اس مارشل لاء کی توثیق کی، کیا یہ کتاب مارشل لاء کے اثر میں لکھی گئی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ لفظ کا مطلب عدلیہ کو محکمہ کہنا نہیں ہے، ہر ملک کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ثابت کردیں کہ کیسے یہ ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔

ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے، 45 منٹ سے آپ کو سن رہے ہیں، اب دلائل ختم کیجیے، سننا تو آپ کو پورا دن چاہتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں، کوئی دلیل رہ جائےتو تحریر جمع کرائی جاسکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس مظہرصاحب کے یہ بتادیں کون سی آئینی شق متاثر ہوئی، یہاں دو سوالات اٹھتے ہیں، کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کی مجاز ہے، بتائیں کہ کون سی دفعہ کس آئینی شق سے متصادم ہے، ایک سوال اہلیت اور دوسرا تضاد کا ہے۔

اس کیس نے آج کے بعد نہیں چلنا

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جتنا باریکی میں جائیں گے زیادہ وقت لگے گا، اس کیس نے آج کے بعد نہیں چلنا، جتنا وقت آپ لیں گے باقی وکلاء کو کم ملے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ مان رہے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کیلئے با اختیار ہے، جسٹس اعجازالاحسن کے دوسرے سوال کا جواب دیں۔

پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کو مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا جو نہیں کیا۔

کیا پارلیمنٹ قانون سازی کرنے کیلئے با اختیار نہیں؟

جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہے، کیا پارلیمنٹ قانون سازی کرنے کیلئے با اختیار نہیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جا سکتی ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اب آئینی شق کا کیا تعلق ہے جب قانون بن چکا۔ جسٹس سردارطارق نے ریمارکس دیے کہ کیا پارلیمنٹ قانون نہیں کر سکتی کوئی حوالہ تو دے دیں۔

وکیل اکرام چوہدری نے مؤقف اختیار کیا کہ میرے بنیادی حقوق کا تحفظ ضروری ہے، باقی دلائل تحریری طور پر جمع کرا دوں گا۔

درخواستگزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان کے دلائل

درخواستگزار نیازاللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری کے دلائل مکمل ہونے پر درخواستگزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان نے دلائل کا آغاز کیا اور مؤقف پیش کیا کہ تمام عدالتی سوالات کے جواب آئین میں موجود ہیں۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عائشہ ملک نے وکیل حسن عرفان سے استفسار کیا کہ آپ اب تک درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دے رہے ہیں، صرف یہ بتا دیں کہ کن دفعات سےآپ متفق یا مخالف ہیں۔

وکیل حسن عرفان نے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں آئین میں ترمیم کر دی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ مفاد عامہ کی بات کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کیلئے قانون سازی نہیں ہوسکتی، درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ میرا مؤکل وکیل ہے اور نظام انصاف کی فراہمی کا اسٹیک ہولڈر ہے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسے متاثر ہوا۔

درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے آگے نکل چکے ہیں

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ انصاف تک رسائی کیلئے عدالت کو آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی بنیادی حقوق سے جڑی ہے، پہلے بتائیں کہ ایکٹ سے بنیادی حق کیسے متاثر ہوتا ہے، درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے آگے نکل چکے ہیں، انصاف تک رسائی کیلئےبنیادی شرط آزادعدلیہ ہے۔

کیا اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں۔ وکیل حسن عرفان نے مؤقف پیش کیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا، پارلیمان سپریم ضرورہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔

کیا آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے، اسے مدنظر رکھیں، جب مارشل لاء لگتا ہے سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، مارشل لاء لگے تو حلف کو بھول جایا جاتا ہے، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے، یہاں مارشل لا نہیں ہے، ماضی میں وکلاء 184تین کے بے دریغ استعمال پر تنقید کرتے رہے، آپ کے بطور شہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثرہوئے، کیا آپ اگلے مارشل لا کا دورازہ ہم سے کھلوانا چاہتے ہیں، نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے۔

وکیل حسن وکیل حسن عرفان نے مؤقف پیش کیا کہ میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا، کل کو سماجی و معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔

ججز نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان کی عزت کرنی چاہیے، اسی عدالت نے کئی بار مارشل لاء کی توثیق کی ہے، پاکستان کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اسے نظر انداز نہیں کرسکتے، ججز نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دی۔

فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مطمئین ہیں کہ سپریم کورٹ جو بھی کرے تو وہ ٹھیک ہوگا۔ جس پر وکیل نے کہا کہ وہ مطمئین ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کی اجازت دی، کیا آپ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیار کم نہ ہو، فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے، فرد واحد کرے تو ٹھیک، پارلیمان کرے تو گناہ ہوگیا، مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے، ہم 3 لوگ فیصلہ کریں یا 5 کریں آپ کو کیا مسئلہ ہے۔

اپیل کا حق دینا اختیار کس کا ہے

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ کیا آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ اپیل کا حق دینا اختیار کس کا ہے، ایسے تو پارلیمنٹ ایک کے بجائے 4 اپیلوں کا حق دے دے۔

وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے سے متفق نہیں۔

سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کو احترام دینا ہوگا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں، یہ دیکھیں کہ قانون عوام کیلئے بہتر ہے یا نہیں، میں مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں، تمیزالدین کیس سے شروع کریں یا نصرت بھٹو کیس سے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان عدالتی معاملات پر قانون سازی کرسکتی ہے؟۔

آرٹیکل191میں آئین کیساتھ قانون کا بھی ذکرہے

وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ میرے مطابق پارلیمان ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی، آرٹیکل191 کے تحت سپریم کورٹ رولز خود بناتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل191میں آئین کیساتھ قانون کا بھی ذکر ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل191 میں قانون کا مطلب پارلیمان کا اختیار ہے۔ جس پر وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ آئین کی ٹکڑوں میں تشریح کی گئی تو نتیجے پرنہیں پہنچ سکیں گے۔

آئین وقانون تو پارلیمنٹ بناتی ہے

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ آئین وقانون کے تحت رولز بنا سکتی ہے، آئین وقانون تو پارلیمنٹ بناتی ہے، سپریم کورٹ آئین وقانون سے باہر کے ضوابط نہیں بناسکتی۔

وکیل حسن عرفان نے جواب دیا کہ یہ تو آپ ججز کی اکثریت نے فیصلہ کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تو ہم فیصلہ کر لیں گے آپ بیٹھ جائیں۔

سپریم کورٹ خود بھی آئین سے ہی بنا ہے

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ قانون کا مطلب صرف ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئین وقانون کے مطابق رولز بنانے میں پابندی کہاں سے آگئی، سپریم کورٹ خود بھی آئین سے ہی بنا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا 1956کے آرٹیکل177 اور 1973کے آرٹیکل191 میں فرق ہے، قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے وکیل حسن عرفان سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ ”ہاں نہ“ کے سوا کچھ نہیں کہہ رہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا دنیا میں پارلیمنٹ کے قانون سے بالا کوئی رولز ہو سکتے ہیں، دنیا کی کوئی مثال ہو تو دے دیجیے گا۔ جس پر وکیل حسن عرفان نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ پر قانون سازی کی پابندی نہیں تو اجازت بھی نہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل

درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل شروع ہوئے تو وکیل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ درخواست گزاروں کے مؤقف کی تائید کرنا ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف پیش کیا کہ آرٹیکل191پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا اہل نہیں بناتا، فیڈرل قانون سازی فہرست کے علاوہ قانون سازی نہیں ہوسکتی۔

عذیر بھنڈاری نے امریکا کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امریکی عدالت کو چھوڑیں اپنے آئین کی بات کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مصنوعی ذہانت، خلا، سماجی رابطوں پر پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں نہیں، پاکستان خلائی مشن شروع نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا تذکرہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں نہیں، اگر کسی کو خلائی پروگرام کرنا ہے تو کیا وہ کسی معاہدے کے تحت ہوگا، خلائی مشن شروع کرنے کیلئے پارلیمنٹ کون سا اختیار استعمال کرے گی، یا تو کہیں کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ سے باہر نہیں جانا۔

پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں خلائی مشن سے متعلق کیس تیار کرکے تو نہیں آیا، 2 سماعتوں سے میں سن ہی رہا ہوں اب آپ بھی مجھے بولنے دیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں میں معذرت خواہ ہوں۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے مؤقف رکھا کہ سبجیکٹ ٹولاء کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 191 کے تحت قوانین آئینی شقوں کے مطابق ہوں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ ایکٹ سپریم کورٹ رولز سے کیسے متصادم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیارغیر معمولی ہے، آرٹیکل 184/3 کا اختیار کسی اور ملک میں نہیں، اگر سپریم کورٹ کو غیر معمولی اختیار دیا جاسکتا ہے تو کیا واپس نہیں ہوسکتا، پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کا اختیارات دیئے اب اگراس کو بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا زیادہ دماغ مل کر سوچیں تو بہتر ہو گا یا پھر صرف ایک چیف جسٹس فیصلے کرے، موجودہ ایکٹ سے چیف جسٹس کے اختیارات کیسے کم ہورہے یہ سمجھائیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184تین کااختیارپہلے سے موجود ہے اس میں صرف ایک اپیل کا حل دیا گیا ہے، اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اپیل ایک بنیادی حق ہے جس کوباقاعدہ قانون سازی سےدیا جانا چاہئے، عام قانون سازی سے یہ قانون سازی کا حق نہیں دیا جاسکتا، کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کرسکتی تھی، اس وقت پر یہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی۔

میں نہیں محسوس کر رہا کہ ہم سے کوئی اختیارات لے لئے گئے

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا ایکٹ کے ذریعے اس اختیار کو وسیع کیا گیا یا کم، جو نیا اختیار دیا گیا وہ اسی سپریم کورٹ کے اندر ہی دیا گیا، اس عمارت سے باہر کسی کو اختیارات منتقل نہیں کئے گئے، آپ بتائیں ایکٹ سے سپریم کورٹ کےاختیارات کم کیسے ہوئے، میں نہیں محسوس کر رہا کہ ہم سے کوئی اختیارات لے لئے گئے۔

آئین و قانون پہلے، عدالتی فیصلے بعد میں

وکیل عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ بطور وکیل سپریم کورٹ کے فیصلوں کا پابند ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ آئین اور قانون کے پابند ہیں عدالتی فیصلے بعد میں آتے ہیں، میں نے حلف آئین و قانون کے مطابق لیا ہے،عدالتی فیصلوں کے مطابق نہیں۔

جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191 کو پارلیمنٹ کوقانون سازی کا اختیاردینے کی شق کے طورپردیکھا جا سکتا ہے، اگر سپریم کورٹ کے کوئی رولز نہ ہوتے تو آرٹیکل 191 کو کیسے دیکھا جاتا، سپریم کورٹ اپنے قوانین نہ بناتی تو کیا قانون سازی کے ذریعے نہیں بنائے جا سکتے تھے۔

عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون حاوی ہوگایارولز۔ جس پر وکیل نے کہا کہ میری نظر میں رولز کو اہمیت دی جائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز بائینڈنگ ہیں قانون نہیں۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ رولز آئین کے تحت بنائے گئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، پارلیمان نے آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا ہے، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا ہے کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

وکیل عزیربھنڈاری نے سوال اٹھایا کہ آرٹیکل 184/3میں کہاں لکھا ہے کہ اطلاق قانون کے تحت ہوگا۔

چیف جسٹس وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں آپس میں بحث کے بجائے آپ کو سنناچاہیں گے، اپنی رائے تو ہم فیصلے میں لکھ ہی دیں گے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اسپیشل ٹریبونل بنائےگئےہوں تواپیل دی جاسکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں کچھ موضوعات پرقانون سازی کاحق دیاگیا، آرٹیکل191میں قانون سازی کا اختیار کہیں نہیں، اگر ایسا ہے تو قانون کے تابع رولز بنانے کے الفاظ غیر موثر ہو جائیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ دلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے۔ جس پر وکیل عزیربھنڈاری نے جواب دیا کہ جو قانون عدالت میں زیر بحث نہیں اس پر رائےنہیں دوں گا۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسارکیا کہ اپیل کا حق ملنے سے تحریک انصاف کو کیا مسئلہ ہے، پی ٹی آئی نے اپنا موقف پارلیمان میں کیوں نہیں اٹھایا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ کسی سیاسی فیصلے کا دفاع نہیں کروں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ سیاسی جماعت کے وکیل ہیں تو جواب بھی دینا ہوگا۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اسمبلی سے مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا، تحریک انصاف کے ہر اقدام کا ذمہ دار نہیں ہوں، اچھا کام بھی وہی ادارہ کر سکتا ہے جو بااختیار ہو۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا پارلیمان قانون سازی کیلئے اچھا ادارہ نہیں ہے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمان آئین کے مطابق قانون سازی کرے تو ہی ٹھیک ہوگا۔

چیف جسٹس نے وکیل عزیر بھنڈاری سے سوال کیا کہ اگرغصے میں آپ کا لائسنس منسوخ کر دوں تو کیا ہوگا، اپیل کا حق نہ ہو تو نظرثانی کا دائرہ کافی محدود ہے، پارلیمان نے 184/3 کا غلط استعمال دیکھ کر ہی اپیل کاحق دیا ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے چیف جسٹس کے سوال پر کہا کہ پوری امید ہے آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ ایک مثال دیں کہ دنیا میں سزا کے خلاف اپیل کا حق نہیں۔ جس پر وکیل عزیربھنڈار نے کہا کہ باہر دنیا میں جانے کی کیا ضرورت ہے، اپنے ملک کی مثال دیکھ لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ امریکا میں تو ازخود نوٹس بھی نہیں ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ بڑےبینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل کہاں جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی کو اپیل کے حق سے فائدہ ہی ہو جائے۔ جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مسئلہ فائدے یا نقصان کا نہیں ہے، آج میرا موکل جیل میں ہےکل دوبارہ اقتدارمیں آسکتاہے، اس کی ہدایات ہیں کہ قانون برقرارنہیں رکھا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات لینے کی بات نہ کریں یہ 184/3 کا مقدمہ ہے۔ جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان میں ہاتھاپائی بھی ہوتی رہی ہے، عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پارلیمان کا بھی تحفظ کرنا ہے، تمام ججز فل کورٹ بلانے کا کہیں اور میں نہ بلاؤں تو کوئی کچھ نہیں کرسکے گا، پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کو اچھا لگے یا نہیں، ایکٹ بنانا ہے، چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام ایک فرد کی بے پناہ طاقت کی اجازت دیتا ہے، ایکٹ میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنا مقصود تھا، چیف جسٹس کے بے سبب کنڈکٹ کو کوٸی کچھ کہہ سکتا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جب سپریم کورٹ رولز بنے کیا اس وقت کوئی قانون تھا، میرے خیال میں تو آئین کو غیرآئینی طریقے سے ترمیم کیا گیا۔

وکیل عزیربھنڈاری نے مؤقف اختیار کیا کہ ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ مقدمات کیسے مقررہوں گے، قانون صرف بنچز تشکیل دینے کے حوالے سے ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں، چیف جسٹس رولز کے تحت ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں۔

وکیل عزیربھنڈاری نے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدارمیں آئی تو اس ایکٹ سے اچھا قانون بنائےگی۔

وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی نے جوابات جمع کرادیے

اس سے قبل کیس میں وفاقی حکومت نے جواب جمع کروا دیا ہے۔ تحریک انصاف نے اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کروادیں۔

اس ایکٹ کے خلاف سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے حکم امتناع جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ 1 اور لارجر بینچ اس کیس کی 5 سماعتیں کرچکا ہے۔ لارجر بینچ نے 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پرحکم امتناع دیا تھا، اس کے بعد 8 رکنی لارجربنچ نے 2 مئی، 8 مئی، یکم جون اور 8 جون کو مقدمے کی سماعت کی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس وقت کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا تھا کہ جب تک بینچ کی تشکیل سے متعلق اس قانون کے بارے میں فیصلہ نہیں ہو جاتا،تب تک وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

بعدازاں چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کی سابق حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کوریگولیٹ کیا تھا، قانون کے تحت ازخود نوٹس، بینچز کی تشکیل اورمقدمات کی فیکسشن کا اختیار 3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا۔

اس سے قبل 18 ستمبر کو ملکی عدالتی تاریخ میں پہلی بار فل کورٹ کی عدالتی کارروائی سرکاری ٹی وی پرنشر کی گئی تھی۔ یہ سماعت 6 گھنٹے سے زائد تک دکھائی گئی تھی۔

Supreme Court

Practice and Procedure Act