پشاور: ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں نقل، 134 مشکوک امیدواروں سے متعلق اہم فیصلہ
پشاور میں ہونے والے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں خفیہ بلیو ٹوتھ ڈیوائس سے نقل کے معاملے پر ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایوالوئیشن ایجنسی (ایٹا) حکام نے مزید 134 مشکوک امیدواروں کی نشاندہی کر دی۔
خیبر پختو نخوا میں ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں بلیو ٹوتھ ڈیوائس سے نقل کے معاملے پر اہم فیصلہ کرلیا گیا۔
ٹیسٹ میں 170 نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کو کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس کے علاوہ 134 مشکوک امیدواروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں پاس 3200 امیدواروں کے پرچے دوبارہ چیک کیے گئے۔
گزشتہ دنوں ہونے والے ٹیسٹ کے دوران 219 امیدوار رنگے ہاتھوں خفیہ بلیوٹوتھ کے ذریعے نقل کرتے پکڑے گئے تھے۔
واضح رہے کہ ایم ڈی کیٹ کے دوبارہ انعقاد کے فیصلے کیخلاف پشاور میں طلبہ اور والدین سراپا احتجاج ہیں۔
پشاور پریس کلب کے باہر ایم ڈی کیٹ پاس کرنے والے طلبہ اور ان کے والدین کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میں فیل ہونے والے افراد کا مطالبہ مانا گیا ہے، ایم ڈی کیٹ کا دوبارہ انعقاد مافیا کی جیت ہے۔
طلبا نے مطالبہ کیا کہ دوبارہ ٹیسٹ لینا پاس کرنے والے طلبا کے ساتھ زیادتی ہے، لہٰذا اس کے بجائے گزشتہ ٹیسٹ سے متعلق تحقیقات ہونی چاہئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجر کے لیے اس داخلہ ٹیسٹ کو دوبارہ لیے جانے کا فیصلہ صوبائی کابینہ اجلاس میں کیا گیا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے ایم ڈی کیٹ سے متعلق دائر درخواستوں پرسماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ صوبائی کابینہ نے ٹیسٹ 6 ہفتوں میں دوبارہ لیے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ کراچی، لاہور اور پنجاب میں بھی ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ پر جے آئی ٹی بنی ہے، حکومت کے پاس ٹیسٹ کینسل کرنے کا اختیار نہیں، اس کا اختیار پی ایم ڈی سی کے پاس ہے۔
خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجز انٹری ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) میں نقل اور بلیوٹوتھ کے ذریعے پرچہ آؤٹ کرنے کے اسکینڈل سامنے کے بعد کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ 2023 کے نتائج کا اعلان بھی کیا گیا تھا تاہم پشاور ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ تک نتائج کو روک دیا تھا۔
ایم ڈی کیٹ میں بلوٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے نقل کرنے کے معاملے سے متعلق جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے رپورٹ چیف سیکرٹری کو ارسال کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ سرکاری ملازمین نقل کرنے والے نیٹ ورک میں شامل ہیں۔
Comments are closed on this story.