Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
02 Jumada Al-Awwal 1446  

الیکشن توقع سے پہلے ہوسکتے ہیں، نواز اور مریم ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہونگے، ذرائع

اسٹیبلشمنٹ میں ایک رائے تحریک انصاف کی مقبولیت بالکل ختم ہونے تک انتظار کی بھی ہے
شائع 26 اگست 2023 11:28am
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

ذرائع کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر آئندہ انتخابات کرانے کے قانونی اقدامات کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی شور شرابے اسٹیک ہولڈرز کے تصور سے پہلے انتخابات کرانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ ذرائع نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت اس سطح تک کم نہیں ہو جاتی جو قابل انتظام ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ایسے اعداد و شمار جو اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں واپس نہ آئے اور ملک کو مزید تباہ نہ کرے، اس کے لئے پہلے معیشت کو ٹھیک کرکے ہی انتخابات کرانے کی ضرورت ہے۔‘

ذرائع نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے 5 اگست 2023 کو مردم شماری کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا فیصلہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے حلقہ بندیوں کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے درکار چار ماہ کی مدت کو کم کیا جا سکتا ہے اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ انتخابات آئین میں متعین ہ وقت کے اندر ہونے چاہئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ منتخب حکومت کی سربراہی کرنے والے ترجیحی شخص میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ شخص کون ہے تو انہوں نے صرف کندھے جھکائے اور کہا کہ ایک آزمودہ اور قابل اعتماد شخص ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) شہباز شریف انتخابات کے وقت وزارت عظمیٰ کے لیے ’نیلی آنکھوں‘ کے امیدوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اگلی مخلوط حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں ہو گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم گزشتہ 16 ماہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد جیت لیا ہے۔

گزشتہ برس سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ ملک کے اگلے وزیر اعظم ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ہوں گے اور یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ اگلے وزیر خزانہ مراد علی شاہ ہوں گے جنہیں آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سندھ پر اپنی گرفت کے بارے میں مطمئن آصف زرداری جانتے تھے کہ انہیں مرکز میں حکومت بنانے کے لیے دوسرے صوبوں میں نمایاں حمایت کی ضرورت ہے۔

آصف جولائی میں جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے، جنہوں نے روایتی طور پر ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ میں وفاداریاں تبدیل کی ہیں۔

جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز نے ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی کی حمایت پر اتفاق کیا تھا لیکن جہانگیر ترین کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے قیام کے بعد عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سابق رکن انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم کے طور پر منتخب کرنے سے زرداری کی بی اے پی کے ساتھ اتحاد بنانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب کہ آئی پی پی اور بی اے پی دونوں اسٹیبلشمنٹ سے ہدایات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

زرداری اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ممکنہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں لیکن یہ مشکل دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ جن نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ چاہتے ہیں وہ ن لیگ کے دیرینہ وفاداروں کا حلقہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگلی وفاقی کابینہ میں شہباز شریف کی کابینہ کا حصہ رہنے والے بہت سے اراکین شامل ہوسکتے ہیں تاہم اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلمدان ملنے کا امکان نہیں ہے۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ اگلی حکومت بھی اتحادی ہوگی اور اگر پیپلز پارٹی اور ن لیگ اتحاد بناتے ہیں تو زرداری مراد علی شاہ کو وزیر خزانہ بنانے پر اصرار کریں گے۔

ذرائع کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں پنجاب سے 371 میں سے 180 اور خیبر پختونخوا سے 145 میں سے 95 نشستیں حاصل کرنے والی پی ٹی آئی کو اب بھی دونوں صوبوں میں نچلی سطح کی حمایت حاصل ہے۔

اس ضمن میں ذرائع نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ جہانگیر ترین کی آئی پی پی یا پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز پی ٹی آئی کی نچلی سطح پر مقبولیت کو کم کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو یکساں مواقع فراہم نہ کرنے پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن الیکشن کے دوران دھاندلی زیادہ سے زیادہ نتائج کے 15 سے 20 فیصد تک محدود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

عمران خان اور پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پرسوالیہ نشان

الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی تاریخ پر انتخابات کرائیں گے، نگراں وزیر اطلاعات

الیکشن کمیشن کا انتخابی شیڈول پر مشاورت سے انکار، ایوانِ صدر نے وزارت قانون سے رائے مانگ لی

اس کے علاوہ ذرائع کا مزید بتانا تھا کہ الیکشن کے بعد دھاندلی سے ایک ایسے اتحاد کو یقینی بنایا جا سکے گا جس پر طاقتور اسٹیک ہولڈرز کا کنٹرول لگانا آسان ہو جائے گا۔

PMLN

Shehbaz Sharif

Asif Ali Zardari

PPP

Election Commission of Pakistan (ECP)

general elections 2023