عالمی حدت سے درختوں کے پتے ناکارہ ہونے لگے
تحقیق میں بتایا گیا ہے عالمی درجہ حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے ’بڑے پیمانے پر پتوں کو ناکارہ ہونے سامنا کرنا پڑتا ہے، اور کچھ اقسام کے درختوں کے پتے ناقابل برداشت حدت میں اپنی اصلی شکل میں بھی نہیں ڈھل سکتے۔
جرنل نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عالمی حدت کے باعث متاثرہ جنگلات اتنے گرم ہو سکتے ہیں کہ کچھ اقسام کے پتے اب اپنی اصلی شکل میں بھی نہیں ڈھل سکتے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ عالمی حدت سے متاثرہ درختوں میں شکل اختیار کرنے کی ترکیب اوسطا 46.7 سینٹی گریڈ پر ناکام ہونا شروع ہوجاتی ہے، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جنگلات توقع سے زیادہ خطرناک درجہ حرارت کی حد کے قریب پہنچ سکتے ہیں۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر ناسا کے تھرمل امیجنگ آلات سے حاصل ہونے والے ہائی ریزولوشن ڈیٹا اور دنیا بھر کے ٹراپیکل جنگلات میں زمین پر کیے جانے والے تجربات کے امتزاج کا استعمال کرتے ہوئے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تمام پتوں کا تقریبا 0.01 فیصد حصہ پہلے ہی اپنی حد سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہا ہے۔
محقیقین نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک بار عالمی درجہ حرارت میں 3.9 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگیا تو تو ان جنگلات میں بڑے پیمانے پر پتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جنگلات کا لکڑی کے کاروبار میں تبدیل ہونے کا اندیشہ
ناردرن ایریزونا یونیورسٹی میں ایکو انفارمیٹکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے سربراہ کرس ڈوٹی کا کہنا ہے کہ گرم پتے، بے شک اب کم تعداد میں ہوں، ’ٹراپیکل ماحولیاتی نظام کے لیے کوئلے کی کان میں چنگاری‘ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پتوں میں حدت کے اضافے سے درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافے کا انکشاف ہوا ہے، اور حیران کن امر یہ ہے کہ جب ہم نے ایک تجربے میں پتوں میں حدت کو 2 ، 3 یا 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ کیا تو تو پتوں کا سب سے زیادہ درجہ حرارت دراصل 8 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ گیا، اس سے غیر رسمی تاثرات کا پتہ چلتا ہے جس کی ہم توقع نہیں کر رہے تھے۔
کرس ڈوٹی کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں اور ٹراپیکل جنگلات کی ہوا کے درجہ حرارت میں 4 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں تو بڑے پیمانے پر پتوں کے ناکارہ ہونے، درختوں کی ممکنہ اموات اور تمام ٹراپیکل جنگلات کے ختم ہونے (لکڑی کے کاروبار میں تبدیل ہونے) کا اندیشہ ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے بچنا درجہ حرارت کو مستحکم کرنے کی بنیاد
یونیورسٹی کالج لندن میں ریموٹ سینسنگ کے پروفیسر میٹ ڈزنی کا کہنا ہے کہ عالمی اثرات کے لحاظ سے ”روشنی کا ردعمل اثرات کے لحاظ سے برفانی تودے کی نوک ہوگا، کاربن کے اخراج میں کمی، ممکنہ طور پر اموات میں اضافہ اور یہاں تک کہ جنگل سے ویرانے میں ممکنہ منتقلی کا سبب بنے گا“، اگر ہم نے اس پر تیزی سے کام نہیں کیا تو مستقبل قریب میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ڈزنی نے کہا کہ عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کم از کم 50 فیصد تبادلہ جنگلات کی کینوپیز کے ذریعے ہوتا ہے، جو ہماری آب و ہوا کے اہم ریگولیٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں، سب سے پہلے اعلی اخراج سے بچنا درجہ حرارت کو مستحکم کرنے کی بنیاد ہے، “ہمیں زیادہ اخراج کے منظرنامے سے بچنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔
یونیورسٹی کالج لندن میں گلوبل چینج سائنس کے پروفیسر سائمن لیوس کا کہنا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے کم اخراج والے ماحول میں تقریبا تمام ٹراپیکل جنگل کے درختوں کے پتے زیادہ گرم ہونے کے باعث ناکارہ ہونے سے بچ سکتے ہیں اور درخت زندہ رہیں گے۔
پروفیسر سائمن لیوس نے کہا کہ اس مطالعے میں جس چیز پر غور نہیں کیا گیا ہے وہ ہیٹ ویو ہے، ہم اب بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے کم اخراج کے پیش نظر ہیٹ ویو کے دوران محدود مدت کے لئے زیادہ گرم ہونے سے درختوں کی اموات دیکھ رہے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ درخت طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں، بڑے پیمانے پر درختوں کی اموات باقی پودوں اور جانوروں کے لئے بڑے اثرات مرتب کرسکتا ہے جو برسات میں بچنے کے لئے ان بڑے درختوں پر انحصار کرتے ہیں۔
ڈزنی نے عوام پر پر زور دیا ہے کہ ایسے حکمرانوں کا چناؤ کریں جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور کم کاربن والی معیشتوں میں منتقلی کے بارے میں سنجیدہ ہیں، ہم سب کو ان ممالک اور لوگوں کی مدد کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرسکتے ہیں جو معاشی طور پر ٹراپیکل جنگلات میں رہتے ہیں اور ان پر انحصار کرتے ہیں، تاکہ ان تبدیلیوں میں مدد مل سکے، کیوں کہ ٹراپیکل جنگلات میں ہونے والی سنگین تبدیلیاں نہ صرف مقامی لوگوں کو متاثر کرتی ہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔
Comments are closed on this story.