خلیج فارس پر کنٹرول کیلئے ایران اور امریکا میں فوجی کش مکش
خلیج فارس پر کنٹرول کیلئے ایران اور امریکا میں فوجی کش مکش جاری ہے۔ امریکی فوج کے آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر مسلح محافظوں کی تعیناتی سے متعلق بیان کے بعد ایران نے اپنی بحریہ کو ڈرونز اور میزائلوں سے لیس کر دیا۔
پاسداران انقلاب کی بحریہ کے کمانڈر علی رضا تانگسری نے ہفتے کے روز سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ نئے میزائل بہتر درستگی کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بھی ہیں۔
کمانڈر علی رضا نے کہا کہ کروز میزائل بیک وقت کئی اہداف پر حملہ کرسکتے ہیں اور ٹیک آف کے بعد کمانڈز کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ آبنائے ہرمز میں امریکا کے ساتھ کشیدگی میں مسلسل اضافے کے پیش نظر ایران نے اپنی پاسداران انقلاب کی بحریہ کو ڈرونز اور 1000 کلومیٹر (600 میل) فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے لیس کر دیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کا کہنا ہے کہ پاسداران انقلاب کے ہتھیاروں میں مختلف قسم کے ڈرون ز شامل ہیں۔ 300 سے 1000 کلومیٹر تک مار کرنے والے کئی سو کروز اور بیلسٹک میزائل ان نظاموں اور سازوسامان میں شامل ہیں جو بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔
ایران کی جانب سے اپنی بحریہ کو ڈرونز اور میزائلوں سے لیس کرنے کا اقدام امریکی فوج کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر مسلح محافظ تعینات کر سکتی ہے۔
امریکی فوج کے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ اس اہم آبنائے سے گزرنے والے تجارتی جہازوں پر مسلح اہلکاروں کو تعینات کرنے پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد ایران کی جانب سے متعدد سویلین بحری جہازوں کو قبضے میں لینے سے روکنا ہے۔
واضح رہے کہ آبنائے ہرمز سمندر میں خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ آبنائے ہرمز خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ایک اہم آبنائے ہے۔ اس کے شمالی ساحلوں پر ایران اور جنوبی ساحلوں پر متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔ یہ آبنائے کم از کم 21 میل چوڑی ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیکارچی نے امریکی محافظوں کی ممکنہ موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کے ممالک خود علاقائی پانیوں کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
خلیج فارس، خلیج عمان اور بحر ہند کا امریکا سے کیا تعلق ہے؟ آپ کا یہاں کیا کاروبار ہے؟’’ نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نے بریگیڈیئر جنرل ابوالفضل کے حوالے سے یہ بات بھی کہی۔
Comments are closed on this story.