ججز کیخلاف شکایت پر فوری کارروائی شروع کرنے کی استدعا مسترد
سپریم کورٹ آف پاکستان نے جوڈیشل کونسل میں ججز کیخلاف شکایت پر فوری کارروائی شروع کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس منیب اختر نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
درخواست گزار نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی ریگولیٹ کرنے سے متعلق درخواست دائر کر رکھی تھی۔ سپریم کورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے 13جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکیخلاف ریفرنس جاری رکھنے کی درخواست خارج کردی۔
درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف شکایت آنے پر فوری کارروائی شروع کرنے کے احکامات دینے کی استدعا کر رکھی تھی۔
تحریری فیصلہ
سپریم کورٹ نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، چھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریرکیا۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ جج کو ہٹانے کا اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بعد صدر کو حاصل ہے، آئین میں حاضر سروس جج اور ریٹائرڈ جج کی تفریق واضح ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق جوڈیشل کونسل ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی، جج کو پینشن اور مراعات سے محروم کرنے کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ 13 جون 2023 کو جوڈیشل کونسل کی کارروائی ریگولیٹ کرنے سے متعلق درخواست پر سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ 209 میں جج کو عہدے سے ہٹانے کی بات کی گئی ہے لیکن جج ہٹ جائے تو کچھ نہیں لکھا، درخواست گزار چاہتا کیا ہے کیا کونسل کو عدالت ہدایات دے۔
جسٹس منیب اختر نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ فٹا فٹ جج کے خلاف کارروائی کرنے سے کیا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا، جج کا وقار ہے اور حقوق ہیں کیا چاہتے ہیں کہ جج کیخلاف شکایت آنے پر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ آج کل شکایت کونسل کے پاس جانے سے پہلے سوشل میڈیا پر چل جاتی ہیں، سنجیدہ معاملہ ہونے کی وجہ سے کیس کو توجہ سے سن رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.